کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 495
صفات اور افعال کو مخلوق پر قیاس کیا جائے۔اس لیے کہ اصول دین اور امور ِ عقیدہ میں اصل یہ ہے کہ انہیں قیاس نہ کیا جائے۔ البتہ احکام شریعت میں جن کا تعلق اجتہاد سے ہے، قیاس مطلوب ہے، اور عصر ِ صحابہ سے لے کر آج تک اس پر عمل چلا آرہا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَابَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo﴾(البقرۃ: 234)
’’جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بی بیاں چھوڑ جائیں تو وہ(یعنی بی بیاں) چار مہینے دس دن تک اپنے تئیں روک رکھیں پھر جب اپنی عدت پوری کر لیں تودستور کے موافق اپنے لیے کوئی کام کریں تو کچھ گناہ نہیں تم پر(اے مسلمانو یا عورت کے وارثو) اور اللہ تمھارے کاموں سے خبردار ہے۔‘‘
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ﴾(البقرۃ: 240)
’’اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بی بیاں چھوڑ جائیں(یعنی مرنے لگیں) تو وہ اپنی بی بیوں کے لیے ایک ساتھ تک ان کو نہ نکالنے کی اورخرچ دینے کی وصیت کر جائیں…۔‘‘
پہلی آیت میں بیوہ کی عدت چارماہ دس دن ہے، جب کہ دوسری آیت میں بیوہ کی عدت ایک سال بیان کی گئی ہے۔ان میں سے کس آیت کو لیں گے؟ ظاہری طور پر اگر نسخ کا احتمال بھی مان لیں تو دوسری آیت جس میں عدت ایک سال ہے، وہ ترتیب میں بعد میں ہے، اس سے چار ماہ کی عدت منسوخ ہے۔ مگر علمائے کرام کا اجماع ہے کہ پہلے بیوہ کی عدت ایک سال تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف کی اور چارماہ دس دن باقی رکھی۔ اس کے بعد ان عورتوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ زیب و زینت اختیار کریں، گھروں سے باہر نکلیں یا شادی کریں۔چونکہ اب ان کی عدت ختم ہوچکی ہے۔
ایسے دوسری آیت میں ہے:
﴿وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا﴾(المائدہ: 38)
’’چور مرد اورچور عورت دونوں کے(داہنے) ہاتھ کاٹ ڈالو یہ سزا ہے ان کے کام کی۔‘‘
اب دیکھنا ہے کہ ہاتھ کب کاٹا جائے گا؟ دونوں ہاتھوں میں سے کون ساہاتھ کاٹا جائے گا، اور کس جگہ سے کاٹا جائے، اور کتنا کاٹا جائے گا؟ یہ تمام وضاحت قرآن میں نہیں ہے، مگر حدیث نے اس کو بیان کیا ہے، دائیاں ہاتھ کلائی سے کاٹاجائے گا، اورتین درہم کی مقدار میں چوری ہوگی تو ہاتھ کاٹا جائے گا ورنہ نہیں، قرآنی اجمال کی تفصیل حدیث شریف میں ہے۔