کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 494
ناطہ جوڑنے کا)اس کو پھوڑ ڈالتے ہیں(ناطے والوں سے بدسلوکی کرتے ہیں) اور ملک میں(ناحق)دھند مچاتے ہیں(لوٹ مار۔خرابی۔ظلم۔بدعت)انہی لوگوں پرلعنت پڑیگی(اور رہنے کو)بُرا گھر ملے گا(یعنی دوزخ)۔‘‘ جن لوگوں کے مقدر میں گمراہی ہے، وہ کھلی ہوئی صاف صاف محکم آیات احادیث کو چھوڑ متشابہ کے پیچھے پڑجاتے ہیں تاکہ وہ فتنہ بپا کریں اور لوگوں کو تشویش میں ڈالیں اور ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ کے قرآن اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے استدلال کررہے ہیں۔ اس طرح و ہ متشابہات کا ایک حصہ لے لیتے ہیں، اور اس دوسرے حصے کو ترک کردیتے ہیں جس سے اس پہلے حصہ کی وضاحت اورتفسیر ہوتی ہو۔ جب کہ پختہ علم و الے خوف الٰہی رکھنے والے کہتے ہیں: یہ تمام آیات ہمارے رب کی طرف سے ہیں، اور ان کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں۔وہ متشابہ کو محکم پر پیش کرکے اس سے حل تلاش کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قرآن وہ سنت سب اللہ کی طرف سے ہے، اس میں کوئی تردد یا ٹکراؤ نہیں۔ قرآنی آیات آپس میں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ احادیث قرآن کی تفسیر کرتی ہیں، ایسے ہی احادیث آپس میں بھی ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں۔ یہ اہل علم کا طریقہ ہے۔ وہ متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے۔جب کہ کج رو(ٹیڑھے پن والا) جانتا ہے کہ وہ خطا کار ہے، مگرپھر بھی ایسا کرنے سے مقصود لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ جب کہ جاہل انسان نہ ہی دلیل جانتا ہے، اور نہ ہی طریقہ ء استدلال۔نہ ہی نصوص ِ شریعت کو صحیح طرح سمجھ سکتا ہے، اس لیے کااس کا علم حاصل ِ مطالعہ ہے، اس نے اہل ِ علم سے علم نہیں سیکھا بلکہ کچھ ورق گردانی کرکے اپنے علم کی دھاک بٹھانا شروع کردی۔ جوکہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔کیونکہ اس کے نتیجہ میں نہ صرف وہ خود ہلاک ہوتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ہی ہلاک کرتے ہیں جو ان کی بات مان کر چلتے ہیں۔ یہاں پر متشابہ سے مراد یہ ہے کہ جو آپ پر مشتبہ ہو۔یعنی آپ اس کا ادراک نہ کرسکیں یا سمجھ نہ سکیں۔ سب سے پہلا اشتباہ غیبی امور اور ان کی کیفیات ہیں۔ یہ تمام لوگوں پر متشابہ ہیں۔ انسان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ ان میں توقف کرے، اور اپنی مرضی سے کچھ بھی نہ کہے۔ اس لیے کہ غیبی امور کا سمجھنا ادراک سے باہر ہے، اور عقل کی دخل اندازی غیب کے امور میں ممنوع ہے۔ اس کے بعد متشابہات کا دوسرا درجہ آتا ہے۔ یعنی وہ امورجن کو آپ سمجھ نہ سکیں۔یہ عام مسلمانوں کے لیے تو متشابہ ہیں، مگر پختہ اورگہرا علم رکھنے والے حضرات ِ علمائے کرام انہیں جانتے ہیں۔عام مسلمان کو چاہے کہ وہ خود ایسے امور کے بارے میں توقف کرے، اور علماء سے دریافت کرے۔ اگر اسے حل مل جائے، تو الحمد للہ۔اگر مسئلہ تشنہء لب ہی رہے تو پھر عقل کو ان امور میں دخل انداز نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ شریعت کا ہر ہر معاملہ عقل پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ عقیدہ میں قیاس کی ممانعت مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اورکچھ بھی قیاس نہ کریں): اس سے مراد یہ ہے کہ اصول دین میں قیاس نہ کریں، اور نہ ہی غائب کو شاہد پر، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے اسماء و