کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 493
’’قرآن و حدیث کے متشابہات کے پاس توقف کریں اورکچھ بھی قیاس نہ کریں۔‘‘
شرح: … متشابہ آیات کے بارے میں قرآن نے کچھ یوں بیان فرمایا ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُo رَبَّنَآ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَo﴾(آل عمران: 7۔9)
’’وہ ذات جس نے آپ پر یہ کتاب(قرآن شریف) اتاری، اس میں بعض آیتیں کھلی صاف مضمون کی ہیں وہ تو قرآن شریف کی اصل ہیں(جن کو محکم کہتے ہیں) اور بعض آیتیں متشابہ(مضمون) کی ہیں(جوکئی پہلو رکھتی ہیں) پھر جن کے دل پھرے ہوئے ہیں(یعنی باطل کی طرف جھکے ہوئے) وہ لوگوں کو گمراہ کرنے اور اصلی حقیقت دریافت کرنے کی نیت سے متشابہ آیتوں نے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ حالانکہ اصلی حقیقت ان کی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اورجو پکے عالم ہیں(نہ کٹھ ملا) وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے ان بریہ سب آیتیں(محکم ہوں یا متشابہ) ہمارے پروردگار کی طرف سے(اتری) ہیں اورجن کو عقل ہے وہی سمجھائے سمجھتے ہیں۔(یہ دعا مانگتے ہیں) اے رب راہ پر لگانے کے بعد پھر ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول مت کر اوراپنی رحمت ہم کو عنایت فرما بے شک تو بڑا دینے والا ہے۔اے رب ہمارے جس دن کے ہونے میں شک نہیں اس دن تو لوگوں کو اکٹھا کرے گا(یعنی قیامت کے دن) بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ میں خبر دی ہے کہ قرآن میں محکم اور واضح آیات بھی ہیں جن کے بیان و توضیح کی ضرورت نہیں۔اورمتشابہ آیات بھی ہیں جن کی وضاحت اور بیان کے لیے کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تفسیر و وضاحت کی ضرورت ہے، جیسے کہ مطلق اورمقید آیات، مجمل اور مبین، ناسخ اور منسوخ، یہ تمام چیزیں اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں موجود ہیں۔
احکام ِ شریعت آپس میں متصل ہیں۔ ان کا آپس میں گہرا تعلق اور رابطہ ہے۔ جوکوئی ان میں تفریق کرتا ہے، در اصل وہ اللہ کے ان احکام کو توڑتا ہے جنہیں ملانے کا حکم دیا گیا ہے، ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَہُمْ سُوْٓئُ الدَّارِo﴾(الرعد: 25)
’’اورجولوگ اللہ سے پکاّ قول کرکے پھر اس کو توڑ ڈالتے ہیں اور اللہ نے جس کے جوڑنے کاحکم دیا(مثلًا