کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 491
راہ حق پر استقامت 154 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وإذا أردت الاستقامۃ علی الحق وطریق أہل السنۃ قبلک، فاحذر الکلام، وأصحاب الکلام والجدال والمراء و القیاس والمناظرۃ في الدین، فإن [استماعک ] منہم-وإن لم تقبل منہم-یقدح الشک في القلب، و کفی بہ قبولًا، [فتہلک ]، وماکانت الزندقۃ قط، ولا بدعۃ، ولا ہوی، ولا ضلالۃ، إلامن الکلام و الجدال والمراء والقیاس، [وہي] أبواب البدعۃ والشکوک و الزندقۃ۔)) ’’اگر آپ دین ِحق پر استقامت سے رہنا چاہیں، اور اپنے سے پہلے اہل ِ سنت والجماعت کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں، تو علم کلام، اور اہل کلام، جھگڑالو، شک کرنے والوں، اور دین میں قیاس اور مناظرہ کرنے والوں سے بچ کر رہیں۔ آپ کا صرف ان کی بات سننا ہی-اگرچہ آپ ان کی بات نہ بھی مانیں-آپ کے دل میں شک ڈالے گا۔ یہی ان کی بات کے ماننے کے لیے کافی ہے۔ اس سے آپ ہلاک ہوجائیں گے۔ زندیقیت، بدعت، خواہش پرستی اور گمراہی ہر گز کچھ بھی نہ تھی، یہ سب علم کلام، ناحق جھگڑے، شکوک و شبہات اور قیاس و مناظرہ کی پیدا وار ہیں۔یہ چیزیں بدعت، شکوک و شبہات اور زندیقیت کے دروازے ہیں۔‘‘ شرح: …گمراہ فرقوں کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت علم کلام ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے قرآن و حدیث کے کافی وشافی دلائل اور اطمینان بخش طریقہ کار کو چھوڑ کر علم کلام، منطق اور فلسفہ سے استدلال کرنا شروع کردیااور اس پر بڑی مصیبت یہ کہ ان جدید اور اجنبی علوم کے دلائل کو تو علم الیقین کہتے رہے، جب کہ صحیح احادیث سے ثابت مسائل کو ظنی اور غیر یقینی قرار دیتے رہے۔ یہاں سے شر اور برائی کا ایسا دروازہ کھلا جوآج تک بند نہیں ہوا، بلکہ اس کے کواڑ بڑھتے ہی گئے۔جس کی وجہ سے مناظرہ بازی، لغو قیاس آرائی، کٹ حجتی اور انانیت نے اچھی خاصی جگہ پالی۔ مصنف رحمہ اللہ نے اس پیرائے میں مناظرہ کی بھی مذمت کی ہے۔اس سے مراد وہ مناظرہ ہے جو صرف اپنی برتری ثابت کرنے، یا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہو۔ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور سے لے کر آج تک اہل سنت والجماعت کا یہی قاعدہ رہا ہے کہ وہ حق کی نصرت کے لیے مناظرہ و مجادلہ کرنے کو حسب ضرورت اس کی شروط کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں۔اور اس کے لیے شرط یہ ہے کہ مناظر اپنے مذہب کا اور فریق مخالف کے مذہب کا عالم ہو،دلیل اور وجہ استدلال کاجاننے والا ہواور حاضر دماغ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شخص مناظرہ کرنے میں تو مخلص ہو اور حق کی نصرت کرنا چاہتا ہو، مگر بر وقت اور مناسب دلیل نہ پیش کرسکتنے کی وجہ سے حق کو رسوائی اٹھانی پڑے۔ آگے چل کر مصنف رحمہ اللہ نے ان بدعتی فرقوں کی بات تک سننے سے منع کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ایسے لغو اور بے فائدہ مناظرے سنیں گے، اگرچہ آپ بدعتی کی بات نہ بھی مانیں، تب بھی وہ آپ کے دل میں شکوک و شبہات