کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 490
تواس کے ان اعمال کو درست مانا جائے گا، اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دی جائے گی۔اور اس سے ہٹ کر خواہ مخواہ تحقیق و تفتیش اور تجسس کرناجائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسا سبب موجود ہو، یا قرآئن نظر آئیں تو اس وقت اس سے سوال کرنا اور پوچھنا جائز ہوتا ہے۔ اگر انسان ایسے علاقہ میں ہوجہاں عقدی یا عملی بدعتی غالب ہو، وہاں اس قسم کا سوال پوچھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(آج کل سنت کے بارے میں امتحان لیا جائے گا): مصنف رحمہ اللہ اپنے زمانہ کی بات کررہے ہیں، جب کہ فرقے بہت بڑھ گئے تھے، اورگمراہیوں نے چاروں جانب دامن پھیلائے ہوئے تھے اورہر فرقہ اسلام کا دعویدار تھا۔ ان حالات میں ضروری ہوگیا تھا کہ معلوم کیا جائے کہ کون اہل سنت ہے، تاکہ فقط دعوی کی وجہ سے کوئی دھوکہ نہ کھاجائے۔ سو جوکوئی اہل سنت سے محبت رکھتا ہے، یہ دلیل ہے کہ وہ انسان خیر پر ہے۔اور جوکوئی اہل بدعت سے محبت رکھتا ہے تو یہ دلیل ہے کہ وہ انسان شر(برائی)پر ہے۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…سو دیکھنا چاہیے کہ آپ اپنا دین کس سے لے رہے ہو): اس سے مقصود یہ ہے کہ علم کا حصول اہل سنت و الجماعت کے علماء ربانیین کے ہاتھوں ہونا چاہیے۔نہ کہ اہل بدعت کے ہاتھوں پر، اوروہ لوگ ایمان و عقیدہ پر اثر انداز ہوجائیں۔ یہ حدیث بطور قاعدہ بالکل درست ہے، کہ انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے علم حاصل کر رہا ہے، او رکس چیز کی اشاعت کررہا ہے۔مگر لفظ حدیث اور عبارت ضعیف ہے۔[1] یہ بھی ایک قاعدہ ہے۔ یعنی حدیث کو صرف ان لوگوں سے روایت کیا جائے جن کی شہادت شرعی قاضی کے ہاں قابل قبول ہے۔اس لیے کہ ضعفاء اور من گھڑت احادیث بیان کرنے والے دجال بڑھ گئے ہیں، او رانہوں نے اپنی طرف سے روایات کا جال پھیلایا ہوا ہے۔ لہٰذا حدیث کے قبول کرنے اور قبول کرنے میں احتیاط سے کام لیا جائے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کو اللہ تعالیٰ علم حدیث کی معرفت سے نوازا ہو، باقی عوام الناس کو ان کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
[1] مذکورہ پیرایہ رامہرمزی رحمہ اللہ نے ’’المحدث الفاصل ‘‘(411) میں، اور ابن عدی رحمہ اللہ نے ’’ الکامل ‘‘ (1/159)، (2/798)، (4/ 1369) پراور ابونعیم رحمہ اللہ نے ’’ الحلیہ‘‘ (2 / 278) پر،خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’الکفایۃ ‘‘(ص 125 - 126) پر،اور (9/ 301) پراورابن جوزی نے ’’ الواھیات‘‘(1/131) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے مرفوعاً نقل کیا ہے ۔ یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے ۔ خطیب بغدادی نے ’’الکفایۃ ‘‘(ص125) میں لکھا ہے: ((اور وہ حدیث جس کے بارے میں قاضی ابو عمر القاسم بن جعفر الہاشمی نے ہمیں خبر دی ہے …)) پھر انہوں نے پوری سند اور اس کے ساتھ سابقہ حدیث بیان کی، اور پھر فرمایا: ((بیشک صالح بن حسان اپنی روایت میں اکیلاہے ۔اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے قلت ضبط اور سوئے حفظ کی وجہ سے ان کی حدیث کے ترک کرنے پر نقاد محدثین کا اجماع ہے۔کبھی وہ اس حدیث کو محمد بن کعب سے متصل سند کے ساتھ روایت کرتا ہے، اور کبھی مرسل سند کے ساتھ اور کبھی اسے مرفوع روایت کرتا ہے اور کبھی موقوف))۔ پھر انہوں نے تمام روایات کو ان مختلف سندوں کے ساتھ بیان کیا، اور فرمایا: ’’ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’ضعیف الجامع‘‘ (6193)میں فرمایا ہے: ’’یہ حدیث من گھڑت ہے۔‘‘