کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 489
مذکورہ بالا بدعتی نہ صرف خود طرح طرح کی بدعات کا شکار تھے، بلکہ اپنے دور میں اہل بدعت کے امام و داعی اور ان کے سر غنے تھے۔جنہوں نے بدعات کے پھیلانے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ان لوگوں میں سے بعض مرتد ہوچکے تھے، اور کتاب و سنت کی مخالفت کی وجہ سے گمراہی کے اندھے کنؤوں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے جان بوجھ کر کتاب و سنت کی مخالفت کی، اس وجہ سے کافر ٹھہرے اور جو کوئی ان کی راہ پر چلے گا اس کا بھی وہی حکم ہوگا جو ان لوگوں کا ہے۔ اس لیے اپنے عقیدہ و ایمان کی سلامتی چاہتے ہوئے ان کی راہ سے اجتناب کرنا اور ان کے افکار و خیال سے بچ کر رہنا ہی ہر حال میں بہتر ہے۔ لوگوں کے ایمان کے امتحان کا حکم 153 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والمحنۃ في الإسلام بدعۃ۔ وأما الیوم فیمتحن بالسنۃ، لقولہ:((وإن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم))[1]۔ و((ولا تقبلوا الحدیث إلا ممن تقبلون شہادتہ))۔ فتنظر: إن کان صاحب سنۃ، لہ معرفۃ، صدوق، کتبتَ عنہ: وإلا ترکتہ۔)) ’’اسلام کے بارے میں امتحان بدعت ہے۔ جب کہ آج کل سنت کے بارے میں امتحان لیا جائے گا۔ اس لیے کہ کہا گیا ہے کہ: ’’ یہ علم دین ہے۔ سو دیکھنا چاہیے کہ آپ اپنا دین کس سے لے رہے ہو۔‘‘اور حدیث صرف اس آدمی سے قبول کی جائے جس کی گواہی آپ قبول کرتے ہیں‘‘۔ سو آپ کو چاہیے کہ دیکھیں:’’ اگر وہ اہل ِ سنت ہو، اور اس کی معرفت ہو، سچا ہو، تو اس سے حدیث لکھ لینا۔ اگر ایسا نہ ہوتو چھوڑ دینا۔‘‘ شرح: … اصل چیزلوگوں کے دین اور عقیدہ کی سلامتی،اور ان کے متعلق اچھا گمان ہے جب تک ان سے کسی بدعت یا گناہ کا ظہورنہ ہو، یا اس کے خلاف واضح قرآئن نہ ہوں۔اس لیے بغیر کسی شرعی وجہ کے لوگوں سے ان کے دین اور عقیدہ کے متعلق سوال کرنا اور انہیں امتحان میں ڈالنا بدعت ہے۔جو مسلمان اسلام کا اظہاراورخیر کے کام کررہا ہو،
[1] ابن عدی نے ’’ الکامل ‘‘ (1/155) میں نقل کیاہے، وہاں سے سہمی نے تاریخ جرجان ‘‘(ص 473)پر،ابن جوزی نے ’’الواھیات‘‘(1/131) پر، حضرت انس سے مروفوعا ً روایت کیا ہے،اس کی سند بہت ہی کمزور ہے۔ اس میں خلید بن دعلج بہت ہی ضعیف ہے ۔ جیساکہ ’’المیزان ‘‘(1/663) پر ہے۔ نیز اس میں قتادہ السدوسی مدلس نے - لفظ -’’عن عن‘‘ سے روایت کیا ہے۔اسے امام جوزی نے ’’الواھیات‘‘ (1/ 131) ضعیف کہا ہے ۔امام مناوی رحمہ اللہ نے ’’التیسر ‘‘(1/352-353) پر، اور البانی رحمہ اللہ نے ’’ضعیف الجامع ‘‘ (2021) پرضعیف کہاہے ۔ لیکن یہ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے قول سے صحیح ثابت ہے۔ اسے امام مسلم نے اپنی ’’ صحیح مسلم‘‘ کے مقدمہ میں(1/41) میں، ابن عدی نے ’’ الکامل ‘‘ (1/155) میں، اور ابونعیم نے ’’ الحلیہ‘‘ (2 / 278) میں، اور خطیب بغدادی نے ’’الکفایۃ ‘‘(ص 161) میں، اور رامہرمزی نے ’’المحدث الفاصل ‘‘(414) میں نقل کیا ہے ۔