کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 486
جبکہ بدعتی انسان شیطانی چالیں چلتا ہے تو وہ اپنی غلط راہ کو حق سمجھتا ہے، اور اس کی طرف ورغلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی تائید میں دلائل دیتا ہے اور اپنی اس بدعت کو حق ظاہرکرکے پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اسے توبہ کی توفیق نصیب ہونے کے امکان بہت کم ہیں۔ نیز یہ کہ بدعت ایسے دوسرے افراد میں سرایت کرجاتی ہے کہ وہ اس کا شعور بھی نہیں رکھتے۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ورأی یونس بن عبید ابنہ [وقد ] خرج من عند صاحب ہوی، فقال:’’ یا بني ! من أین جئت؟ قال: من عند فلان۔ قال: یا بني ! لأن أراک خرجت من بیت الخنثی، أحب إلي من أن أراک تخرج من بیت فلان [و فلان]، ولأن تلقی اللّٰه یا بني زانیاً فاسقاً [سارقا] خائناً، أحب إلي من أن تلقاہ بقول فلان و فلان۔‘‘ألا تری أن یونس بن عبید [قد] علم أن الخنثی لا یضل ابنہ عن دینہ، وأن صاحب البدعۃ یُضلہ حتی یکفر ؟)) ’’یونس بن عبید رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ وہ ایک بدعتی کے ہاں سے نکل رہا تھا۔ انہوں نے پوچھا: ’’ اے بیٹے ! کہاں سے آرہے ہو ؟ ‘‘ اس نے کہا: ’’ میں فلاں آدمی کے پاس سے آرہا ہوں۔‘‘ [1] انہوں نے فرمایا:’’ اگر میں تمہیں دیکھوں کے تم ہیجڑوں کے گھرسے نکلے ہوتو یہ بات مجھے منظور ہے، بہ نسبت اس کے کہ تمہیں فلاں اور فلاں کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھوں۔‘‘اے میرے بیٹے ! اگر تم اللہ سے اس حال میں ملو کہ زانی، فاسق، چور، خائن ہو، یہ بات مجھے پسند ہے، بہ نسبت اس کے کہ تم فلاں اور فلاں[2] کی باتیں لے کر اللہ کے پاس جاؤ۔‘‘کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ یونس بن عبید کو پتہ تھا کہ(خنثی)ہیجڑا اس کے بیٹے کو دین سے گمراہ نہیں کرے گا، جب کہ بدعتی اس وقت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا جب تک اس سے کفر کا ارتکاب نہ کروادے۔‘‘ اہل بدعت کی صحبت کا اثر شرح: … مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…ایک بدعتی کے ہاں سے نکل رہا تھا…): اس سے مقصود یہ نہیں کہ شیخ زانی اور فاسق وفاجر کے ساتھ صحبت کی ترغیب دے رہے ہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے اگر انسان کو-اللہ نہ کرے-ایسی ضرورت پیش آئے تو زانی و فاسق و فاجر کی صحبت کا خطرہ بدعتی کی صحبت کے خطرہ سے بہت
[1] یہ بدعتی عمرو بن عبید بصری تھا۔ عابد و زاہد تھا، مگر عقیدہ اہل قدریہ کا تھا۔ کبار اولین معتزلہ میں شمار ہوتا ہے۔ 143 ہجری میں ہلاک ہوا۔ دیکھو: ’’سیر اعلام النبلاء ‘‘ (6/104)۔ [2] اسے ابونعیم نے ’’ الحلیۃ‘‘(3/20-21) میں روایت کیاہے۔خطیب نے ’’تاریخ بغداد ‘‘(12/ 172 - 173) پر،ابن بطہ نے ’’الإبانۃ الکبری ‘‘ (464) پر، اور آجری نے ’’الشریعۃ ‘‘ (2061) میں صحیح سندکے ساتھ نقل کیا ہے۔