کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 485
آپ کا بھی اس کے ساتھ ہی ہلاک ہوجانے کا اندیشہ ہے۔‘‘ شرح: … گنہگاراہل سنت ظالم اور فاسق و فاجر توہوسکتا ہے مگر جب تک اس کا عقیدہ صحیح ہے اور وہ اہل سنت میں سے ہے تو اس کے ساتھ بیٹھنا تمہارے لیے اس سے بہتر کہ کسی عابد و زاہد بدعتی کی مجلس میں بیٹھو۔ اس لیے کہ اس اہل سنت سے آپ کے عقیدہ اور ایمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں۔اور اس کے بارے میں اللہ کے ہاں امید کی جاسکتی ہے کہ یہ انسان کسی وقت بھی ندامت کی وجہ سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرے، اوراللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیں۔ مگر بدعتی کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی، اس لیے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اسے حق سمجھ کر کررہا ہے اور غالب طور پر بدعتی توبہ نہیں کرتے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بدعت ایسا شر ہے جو کہ شیطان کو کسی بھی دوسرے گناہ سے بڑھ کر محبوب ہے۔پس اپنے آپ کو شیطانی پھندے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ جوکوئی اہل سنت والجماعت ہو، بھلے اس کے کتنے گناہ کیوں نہ ہوں۔جب تک وہ ایسا گناہ نہ کرے جس کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔ دراوی کہتا ہے کہ: ایسا فعل جس کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوجانا لازم آتاہو،اگر کسی اہلِ سنت سے سر زد ہوجائے تب بھی امید کی جاسکتی ہے کہ یہ انسان اپنے فعل کی برائی کو سمجھے اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرلے۔لہٰذا اس صورت میں بھی اگر کسی کے ساتھ بیٹھنا ہی ضروری ہو تو اس انسان کے ساتھ بیٹھاجائے مگر بدعتی کے قریب بھی نہ جایا جائے۔کیونکہ بدعتی کی عبادت وریاضت کے باوجود اس کی بدعات سے ایمانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اگر انسان شرک کے علاوہ ہر قسم کے گناہ لے کر اللہ تعالیٰ سے ملے یہ اس سے بہتر ہے کہ کوئی بدعت لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس جائے۔‘‘[1] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ کبیرہ گناہوں کے مرتکب اہل سنت کی قبریں ایک باغہیں، اور اہل بدعت کے زہاد کی قبریں بھی-جہنم کا-گڑھا ہیں۔ اہل سنت کے فاسق بھی اولیاء اللہ ہیں، اور اہل بدعت کے زہاد بھی اللہ کے دشمن ہیں۔‘‘ اس پیرائے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان گنہگار کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھے گاتو اس کا اتنا نقصان نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا گناہ اور فسق اور فجور واضح ہے۔ جس سے طبیعت سلیم نفرت کرتی ہے۔ پھر یہ گنہگار اپنی گناہ کی تائید میں دلائل بھی نہیں پیش کرتا، بلکہ اسے گناہ ہی سمجھتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس بات کی بہت قوی امید ہے کہ وقت ِ قریب یا بعید میں توبہ کرلے، اور اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیں۔ نیز یہ کہ گناہ کے کام کو جانتے ہوئے دوسرے انسان کی طرف اس کے منتقل ہونے کے اثرات و امکانات بدعت کی نسبت بہت ہی کم ہیں۔
[1] اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’الاعتقاد ‘‘(ص 158) میں روایت کیا ہے۔ ’’طبقات حنابلہ ‘‘ (1/184)۔