کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 482
’’جان لیجیے کہ جو کوئی صحابہ میں سے کسی ایک پر زبان درازی کرے، تو سمجھ جائیے کہ اس کا ارادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر زبان درازی کا ہے اور اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں تکلیف دی ہے۔‘‘ شرح: … شیخ ناصر العقل حفظہ اللہ اس پیرائے کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’انسان کا قیاس اس کے ساتھیوں سے کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أن من أبر البر صلۃ الرجل مع أہل ود أبیہ بعد أن یولي))[1] ’’ باپ کے-مرجانے کے بعد بیٹے کی طرف سے اس کے لیے-رہ جانے والی بھلائی اس کے دوستوں کے ساتھ حسن ِ سلوک ہے،اس مقام پر فائز ہونے کے بعد۔‘‘ یہ بات طے شدہ ہے کہ اپنے باپ کے دوستوں کو تکلیف دینا ایسے ہی ہے جیسے اپنے مردہ والد کو قبر میں تکلیف دینا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو تکلیف دینا بالکل ایسے ہی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کو قبر شریف میں تکلیف دینا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک منہج اورعقیدہ پر جمع کیا، ان کی تربیت کی، اپنی نگرانی میں ان سے مختلف ذمہ داریاں پوری کروائیں، ان کا تزکیہ کیا:اور پھر اس کے بعد ان کے جنتی ہونے کی ضمانت دی۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا تزکیہ بھی کیا ہو، اور ان کے بارے میں تکلیف دہ بات کرنے سے منع بھی کیا ہو۔ تو پھر کسی کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ وہ ان کی برائیاں بیان کرے اور وہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوی میں کیسے سچا ہو سکتا ہے جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے صحابہ کو تکلیف دیتا ہو۔ایسا انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حقیقت کو نہیں جانتا: ((لا تسبوا أصحابی، فوالذي نفس محمد بیدہ لو أنفق أحدکم مثل أحدٍ ذَہَباً ما بلغ مد أحدہم و لا نصیفہ))[2] ’’ میرے صحابہ کرام کو برا بھلا نہ کہو: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے گا وہ ان کی ایک مٹھی یا آدھی مٹھی کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگون کی تعریف و مدح بیان کررہے ہیں، جب کہ یہودیوں کے خود کاشتہ پودے انہیں ظالم و جابر اور شراب خور کہہ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گمراہی سے محفوظ و مأمون رکھے۔ آمین۔ صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا کتاب اللہ میں طعن کرنے اور نقص نکالنے کے مترادف ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[1] مسلم باب: صلۃ أصدقاء الأب والأم، ح: 6679۔ [2] أخرجہ ابو داؤد ح: 4660۔ صحیح ۔و الطبرانی فی الکبیر (10/ 243- 244)، و أبو نعیم فی الحلیۃ (4/ 108)، قال:الإمام الألبانی’’ السلسلۃ الصحیحۃ ‘‘ (34) صحیح۔