کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 477
بیٹھنے والے کو اس کے حالات کا علم نہ ہو۔ اس پر اس کا بدعتی ہونا عیاں نہ ہو۔ اس صورت میں پہلے ایسے انسان کو سمجھایا جائے گا، اور اس پر حجت پوری کی جائے گی۔ اگر اس کے بعد بھی وہ اس کی ہم نشینی پر مصر رہا تو اسے بھی بدعتی ہی شمار کیا جائے گا۔
حضرت ابو داؤدسجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’ ’ میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کہا: ’’ کیا جب میں کسی اہل سنت کو اہل بدعت کے ساتھ دیکھوں تو کیا اس سے کلام کرنا ترک کردوں ؟ فرمایا: ’’نہیں، پہلے اسے بتاؤ کہ فلاں اہل بدعت ہے، اگر وہ اس سے کلام کرنا چھوڑ دے تو پھر اس سے بات چیت رکھیں، اور اگر ایسا نہ کرے، تو اسے بھی اس کے ساتھ ہی شمار کیا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ انسان اس کے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘[1]
حضرت ابن عون رحمہ اللہ نے فرمایاہے:
’’جو کوئی اہل ِ بدعت سے ہم نشین ہوتا ہے، وہ ہم پراہل بدعت سے بڑھ کر گراں گزرتا ہے۔‘‘[2]
ابن ابی یعلی نے علی بن ابو خالد رحمہ اللہ کے حالات ِ زندگی تحریر کرتے ہوئے لکھاہے:’’ انہوں نے-یعنی علی بن ابو خالد-[3]نے فرمایا ہے:
’’ میں نے احمد-بن حنبل رحمہ اللہ-سے کہا:’’ بیشک یہ شیخ-جو شیخ ان کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوا تھا-، میرا پڑوسی ہے۔ میں نے اسے ایک آدمی کے ساتھ مجلس کرنے سے منع کیا تھا، مگر یہ چاہتا ہے کہ اس-حارث القصیر،یعنی حارث المحاسبی-کے بارے میں آپ کا فرمان سن لے۔ میں نے اس کے ساتھ کئی سال سے ہم نشینی کی۔ تو پھرآپ نے مجھ سے کہا کہ: اس کے ساتھ نہ ہی بیٹھنا اور نہ ہی اس سے کلام کرنا۔ اس وقت سے لے کر اب تک میں نے اس سے بات نہیں کی۔ مگر یہ شیخ ابھی تک اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھتا ہے۔ تو اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ پھر میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو دیکھا ان کے چہرہ کا رنگ سرخ پڑگیا تھااور آپ کی آنکھیں اور گردن کی رگیں پھول گئی تھیں۔میں انہیں اس حال میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ تھوک کر کہنے لگے: ’’ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو اس کے ساتھ ہوا۔ یہ اس کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا جو اس کے حالات جانتا ہو۔ تباہی ہو، تباہی ہو، تباہی ہو، اس کے ساتھ مغازلی، یعقوب اور فلاں انسان بیٹھا کرتے تھے، اس نے انہیں جہم-بن صفوان-کے مذہب پر لگادیا اوروہ سب اس انسان کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔وہ بوڑھا-پڑوسی-کہنے لگا: اے ابو عبد اللہ! وہ تو حدیث روایت
[1] اسے ابن ابی یعلی نے’’ طبقات حنابلہ ‘‘(1/60) میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ نیز دیکھیں: ’’ الآداب الشرعیۃ ‘‘ لابن المفلح (1/263)۔
[2] اسے ابن بطہ ’’الإبانۃ الکبری ‘‘ (486) میں روایت کیا ہے۔
[3] طبقات حنابلہ ‘‘(1/233- 234)