کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 476
یہ اہل أھواء کا ہمیشہ سے طریقہ ء کار رہا ہے۔ان کے ہاں حق ہونے کا معیار یہ ہے کہ کوئی چیز ان کی خواہشات سے مطابقت رکھتی ہو۔ ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا واجب ہوجاتا ہے۔ (مصنف رحمہ اللہ کافرمان):(… وہ(اہل ہوا) بدعتی کے ساتھ ہم نشین ہے…): مقصود یہ ہے کہ بدعتی کی مجلس میں بیٹھنے والے سے خود بچ کر رہنا اور لوگوں کو خبردار کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے ساتھ بیٹھنا ان سے اور ان کی بدعت سے محبت کی دلیل ہے اور جوکوئی اہل خیر سے ہم نشینی کرتا ہے تو یہ اس کے خیرکی راہ پر ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان شر پسندوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کیا ہے تاکہ عام انسان کے ایمان و عقیدہ اور عمل پر آنچ نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo﴾(الانعام: 68) ’’اور(اے پیغمبر) جب تک ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیتوں کو کریدتے ہیں تو ان کے پاس سے سرک جا یہاں تک وہ(اس کو چھوڑ کر) دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر(کبھی) شیطان(یہ نصیحت) تجھ کو بُھلا دے تو یاد آئے پیچھے(ایسے) ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔‘‘ جب کہ اس کے برعکس دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا صاف حکم ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا جائے جو فقراء اور مساکین تو ہیں مگر راہ ِ سنت پر قائم ہیں۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰیہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا﴾(الکہف: 28) ’’جولوگ صبح اورشام اپنے مالک کوپکارت ہیں اسی کی رضامندی چاہتے ہیں(یعنی طالب مولیٰ ہیں نہ طالب دنیا) ان کے ساتھ اپنے تئیں روک رکھ اوردنیا کاسازو سامان چاہنے کے لیے اپنی آنکھیں ان کو چھوڑ کر دوسروں کو طرف مت دوڑا اور ایسے شخص کا کہا مت مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے، اور وہ اپنی خواہش پر چلتا ہے اس کو اللہ کا ڈر نہیں)اور اس کا کام حد سے بڑھ گیاہے۔‘‘ حدیث میں ہے: ((المرء علی دین خلیلہ، فلینظر أحدکم من یخالل)) ’’ انسان اپنے ہم مجلس کے دین پر ہوتا ہے، پس چاہے کہ تم میں سے کوئی ایک دیکھے کہ وہ کس کے ساتھ میل جول رکھ رہا ہے۔‘‘(اس کی تخریج گزر چکی ہے۔) اس حدیث سے کسی پر بدعتی ہونے کا حکم فی الفور علی الاطلاق نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ بدعتی کے ساتھ