کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 474
جیساکہ حدیث میں ہے:
((أنت مع من أحببت))[1]
’’ تم قیامت کو اسی کے ساتھ ہونگے جس سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘
یہی روایت بخاری شریف میں بھی ہے، اور اس کے آخر میں حضرت انس کے یہ الفاظ زیادہ ہیں، جو کہ اس باب میں انتہائی اہم ہیں۔حضرت أنس فرماتے ہیں:
((فأنا أحِب النبِی صلي اللّٰه عليه وسلم وأبابکر وعمر وأرجوأ ن أکون معہم بِحبِی إِیاہم وِإن لم أعمل بِمِثلِ أعمالِہِم))[2]
اس محبت سے مقصود اتباع ہے۔ نہ کہ فقط دعوی۔ اس لیے کہ زبانی دعوی تو ہر کوئی کرسکتا ہے، مگر عمل کے بغیر اس کا دعوی ہر گزمعتبر نہیں ہے، ؎
کل یّدعي وصلًا بلیلی
و اللیلی لا تقر لہم بذاک
’’ لیلیٰ سے وصال کا دعوی تو ہر کوئی کرتا ہے، مگر لیلیٰ کسی کے لیے بھی اس کا اقرار نہیں کرتی۔‘‘
جو کوئی ائمہ اہل ِ سنت سے محبت کرتا ہے وہ ان کی اتباع بھی کرتا ہے۔ مصنف رحمہ اللہ نے مذکورہ علماء کے نام بطور مثال کے لیے ہیں نہ کہ گنتی اور شمار کے۔ اس لیے کہ یہ لوگ اپنے دور میں اہل ِ سنت ہونے میں مشہور اور معروف ہیں۔
اہل ہواء اور مبتدعین کی ہم نشینی کی ممانعت
انسان جیسی صحبت میں بیٹھتا ہے، اس کا اثر ضرور قبول کرتا ہے۔ جب دین سب سے اہم ترین چیز ہے، اور اس کی حفاظت بھی مطلوب ہے تو شریعت نے ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کردیا جو بدعات میں گرفتار ہوں، یا پھر ان کی صحبت سے دین کو نقصان ہو سکتا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللّٰہِ یُکَفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہِ إِنَّکُمْ إِذاً مِّثْلُہُمْ إِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْکَافِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعاً﴾(النساء: 140)
’’اور اللہ نے تم(مومنوں) پر اپنی کتاب میں(یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم(کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور اُن کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں(نہ) کرنے لگیں اُن کے پاس مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں، سب کو دوزخ میں اکٹھا کرنے والا ہے۔‘‘
[1] سنن أبي داؤد، باب: إخبار الرجلِ الرجلَ بمحبتہ إیاہ، برقم 5128، قال الألباني: صحیح۔
[2] البخاری، باب: مناقب عمر، ح: 6166۔وباب: من شاق شق اللّٰه علیہ، برقم: 7152۔