کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 471
کی حکومت ہے۔ مگر انہوں نے اپنا پرانا عقیدہ ترک کردیا ہے، اس لیے کہ اس عقیدہ کی موجودگی میں دنیا کے ساتھ تعلقات قائم رکھ کر زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔
ایسے ہی وہ باقی علاقے بھی معروف ہیں جن کی بدعات کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…نہ ہی اہل مکہ سے ’’صرف ‘‘ کے بارے میں…):
’’صرف ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ(عملات/ کرنسی اور سکہ) سونے کو چاندی سے اور چاندی کو سونے سے بیچا جائے اور اس کا نام ’’ صرف ‘‘ رکھنے میں دو قول ہیں: اس لیے کہ یہ بیع کے مقتضیات سے موڑ دیتی ہے۔ اس لیے کہ قبضہ میں لینے سے پہلے فائدہ بڑھا کر بیچنا اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔[1]
دوسرا قول یہ ہے کہ: اس لیے کہ مکہ میں تمام عالم سے لوگ آتے ہیں،اور ان کے پاس اپنے اپنے ملک کا سکہ ہوتا ہے، جس کو مکہ میں خرید و فروخت کرنے کے لیے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔سو اس ضرورت کے تحت اہل مکہ کرنسی تبدیل کرنے میں شرعی قواعد کا خیال رکھنے میں سستی برتا کرتے تھے۔[2]
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…نہ ہی اہل مدینہ سے ’’گانے‘‘ کے بارے میں…):
اس لیے کہ مدینہ طیبہ میں ایسے غالی اور جاہل صوفیوں نے ڈیرے لگا لیے تھے جنہوں نے گانے بجانے کو سماع کے نام پر حلال قراردیا تھااور لوگ ان کے ظاہری زہد و تقوی کے فریب میں آگئے تھے۔ حالانکہ جس چیز کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حرام قراردیدیں پھر کسی کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اسے حلال قرار دے۔
ان بستیوں کے رہنے والے اپنی ان بدعات کی تائید میں اگر کوئی دلیل پیش کریں، یا کوئی روایت لائیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ ان لوگوں کی خودساختہ بات ہے، جسے انہوں نے اپنے مسلک کی تائید کے لیے گھڑ لیا ہے، لہٰذا اسے قبول نہ کیا جائے۔
اہل سنت کی علامات
144 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((وإذا رأیت الرجل یحب أبا ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ، وأنس بن مالک رضی اللّٰه عنہ و أسید بن حضیر رضی اللّٰه عنہ، فاعلم أنہ صاحب سنۃ-إن شاء اللّٰه-، وإذا رأیت الرجل یحب أیوب، و ابن عون، ویونس بن عبید، و عبد اللّٰه بن أدریس الأودي، و الشعبي،
[1] (المطلع علی أبواب المقنع ‘‘(ص 239)۔
[2] ابن مبارک رحمہ اللہ کے بیان کردہ معنی میں سلف صالحین سے کئی آثار وارد ہوئے ہیں ۔ ایسے أقوال معمر بن راشداور محمد بن یحی القطان، اور ابراہیم بن ابی علبہ رحمۃ اللہ علیہم سے منقول ہیں ۔ جیسا کہ ’’مسائل امام احمد‘‘ (1632) میں، ان کے بیٹے عبد اللہ بن احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے اور امام خلال رحمہ اللہ نے اسے ’’ الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر ‘‘ میں(ص87- 88) پر، اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ السیر‘‘ میں (3/ 391، اور 6/324) نقل کیا ہے ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے نفیس اور عندہ کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ:’’ انہوں نے اسے رخصتیں تلاش کرنے سے ملتا جلتا قرار دیا ہے۔‘‘ مدار ج السالکین (2/ 57-58)۔