کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 470
کچھ بدعات اوران کے مراکز 143 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وقال عبد اللّٰه بن مبارک:((لا تأخذوا عن أہل الکوفۃ في الرفض [شیئاً]، ولا عن أہل الشام في السیف [شیئاً]، ولا عن أہل البصرۃ في القدر [شیئاً]، ولا عن أہل الخراسان في الإرجاء [شیئاً]، ولا عن أہل مکۃ في الصرف [شیئاً]، ولا عن أہل المدینۃ في الغناء، ولا تأخذوا عنہم في ہذہ الأشیاء شیئاً))۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اہل کوفہ سے’’ رفض‘‘ کے بارے میں کچھ بھی نہ لواور نہ ہی اہل شام سے’’ سیف‘‘(قتل)کے متعلق کچھ لو،اور نہ ہی اہل بصرہ سے’’ قدر‘‘ کے بارے میں کچھ لیں، اور نہ ہی اہل ِ خراسان سے ’’ارجاء ‘‘ کے بارے میں کچھ لو،اور نہ ہی اہل مکہ سے ’’صرف ‘‘ کے بارے میں، اور نہ ہی اہل مدینہ سے ’’گانے‘‘ کے بارے میں کچھ قبول کریں، ان لوگوں سے ان امور کے بارے میں کچھ بھی قبول نہ کریں۔‘‘ شرح: … یہاں سے مصنف رحمہ اللہ چندبدعات کے مراکز کا بیان کررہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں پر بدعت پیداہوتی ہے اورنشو نما پاتی ہے، وہاں کے لوگ اس کا شکار زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر مصنف رحمہ اللہ کا بیان کردہ یہ حکم کلی نہیں ہے۔ بلکہ بطور خاصیت اور نشانی کے ہے۔اس لیے کہ آج تک جتنی بھی بدعات ظہور پذیرہوئی ہیں، ان کا اپنے علاقائی ماحول، سماجی و معاشرتی احوال، سیاسی اتار چڑھاؤ، اور وقتی حادثات سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور رہا ہے۔ ایسے بھی ہوتا رہا ہے کہ کبھی کسی زمانہ اور کسی جگہ کے خاص حالات بھی نئے فرقہ کے پیدا ہونے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ لیکن اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ احکام قطعی طور پر ان ہی علاقوں سے متعلق ہیں کہ ہمیشہ ہمیشہ اس جگہ کے لوگ ایک ہی جیسے ہوں گے۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ جب تک کسی بدعت کا وہاں پر غلبہ رہے تو اس بدعت کی تائید میں وہاں کے[بدعت میں مبتلا ] لوگوں کی بات نہیں مانی جائے گی۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فرمان کہ:(اہل کوفہ سے’’ رفض‘‘ کے بارے میں کچھ بھی نہ لو): اس لیے کہ اکثر شیعہ کوفہ سے ہی نکلے، وہیں پروان چڑھے، اوروہیں سے ان کا مذہب پھیلا، جو کہ صحابہ کرام کی دشمنی اور اہل بیت کی محبت کا جھوٹا دعوی لے کر اٹھے۔اور اس کی آڑ میں لوگوں کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔ امام صاحب کا فرمان کہ:(اہل شام سے سیف(قتل)…): اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے قتل کے لیے تلوارچلانا حلال جاننے والے یعنی خوارج ہیں۔ یہاں پر مصنف سے چوک ہوگئی ہے کہ انہوں نے شام کو خوارج کا مقر یاجائے خروج ظاہر کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، خوارج عراق سے ہی نکلے تھے، او روہیں پر انہوں نے زور پکڑا، اور پھر آہستہ آہستہ پھیلتے چلے گئے۔ عمان میں آج کل بھی ان