کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 47
2۔ جماعت کا اطلاق ان ائمہ ہدایت پر ہوتا ہے جن کی بات مانی جاتی ہے-یعنی ائمہِ اہل سنت والجماعت-یہی لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد اس جماعت میں سب سے پہلے درجہ میں شمار ہوتے ہیں اور صف ِ اول کے لوگ مانے جاتے ہیں۔ 3۔ جماعت سے مراد: سنت اور حق پر اجتماع ہے۔ یہ اجتماع کبھی حسی ہوتا ہے اور کبھی اعتباری اور کبھی حسی اور اعتباری۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کبھی غربت ِ اسلام کے دور میں لوگ کسی سنت پر جمع رہتے ہیں اور اسے مضبوطی سے اپنائے رکھتے ہیں، اگرچہ ان کے جسم اور وطن دوردور بھی ہوں۔ انہیں سنت پر جمع ہونے کی وجہ سے جماعت کہا جاتا ہے۔ 4۔ جماعت سے مراد عمومِ مسلمین ہیں۔ جو ہمیشہ اصل اسلام پر قائم رہتے ہیں اورجب امت مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہو، ان حالات میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔یہی لوگ جب تک حق پر رہیں گے، جماعت ہی کہلائیں گے۔ اگر چہ ان سے بعض ایسی غلطیاں(گناہوں کے کام) بھی ہوں، جن کی وجہ سے انہیں دائرہ اسلام-اہل ِ سنت و الجماعت-سے خارج نہ کیا جاسکتا ہو۔ اگر چہ ان میں سے کسی ایک سے ایسی بدعت کا ارتکاب بھی ہو جائے جو کفر تک لے کر جانے والی نہ ہو، تو اسے جماعت میں ہی شمار کیا جائے گا۔ہاں جب قصداً بدعت کا ارتکاب کرے، اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت بھی دے، اس وقت اسے جماعت سے خارج کہا اور تصور کیا جائے گا۔اس لیے کہ اس نے عموم ِ جماعت ِ مسلمین کی مخالفت کی ہے۔ حق پر قائم رہنے والے یہی وہ لوگ ہیں جنہیں سواد ِ اعظم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ ان لوگوں کے ساتھ مشروط ہے جو حق پر قائم ہوں۔ خواہ یہ حکمران ہوں، یا علماء اور سردار اور بڑے ذمہ دار لوگ، یا عوام الناس-سب وہ جماعت ہی تصور ہونگے جس کے ساتھ منسلک رہنے کا حکم آیا ہے۔ 5۔ جماعت کا اطلاق ولایت-حکومت-پر ہوتا ہے، جس کا تعلق حاکم یا سلطان سے ہے اور اس کا اطلاق اہل حق پر بھی کیا جاتا ہے اور اہل ِ حل و عقد کو بھی جماعت کہا جاتا ہے اور ان میں سر فہرست والیانِ حکومت اورحضرات علمائے کرام ہیں اور پھر وہ لوگ بھی اس میں شامل ہیں جن کا امت(کے لوگوں)میں اثر رسوخ ہو۔ اس لحاظ سے کہ ان کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس معنی کے اعتبارسے: فوجی جرنیل، لشکروں کے سالار اور قائدیں، قبیلوں کے سردار اور بڑے، وزراء اور انتظامیہ کے لوگ، اہل رائے اور مشورہ، جن کے مشورے امت کی مصلحت میں ہوں، یہ سبھی جماعت میں شامل ہیں۔ اگرچہ وہ استقامت پر نہ بھی ہوں۔ لیکن وہ اہل ِ حل و عقد میں داخل ہوں،اور آزمائشوں اور پریشانیوں کے وقت ان پر جماعت کا نام صادق آتا ہوتو یہ بھی جماعت میں داخل ہوں گے۔ اہل سنت والجماعت جب احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ہمیں اہل حق علماء، امراء او رسلاطین کے ساتھ ملتزم رہنے کا حکم دیا ہے۔اور اس معنی میں جماعت سے خارج ہونے سے منع کیا ہے، خواہ امراء اور سلاطین میں غلطیاں اور کوتاہیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لیے کہ جماعت کے ساتھ منسلک رہنے میں