کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 469
رافضیوں نے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تک کو ناصبی کہا ہے۔ چونکہ ان کا عقیدہ اور ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدخلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھی جسے باقی صحابہ نے غصب کرلیا۔ پس جو کوئی یہ کہے کہ اہل سنت ناصبی ہیں، یہ اس انسان کے رافضی ہونے کی دلیل ہے۔ مگر اہل سنت کسی بھی اہل ِ بیت سے نہ ہی بغض و حسد رکھتے ہیں، اور نہ ہی ان کے بارے میں زبان کھولتے ہیں۔ بلکہ ان کی محبت و عقیدت اور عزت و احترام کو اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں،، اور ان کے بارے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو بالکل نہیں بھولے، اور اس پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں رب نہیں بناتے اور نہ ہی انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی کے معصوم عن الخطأ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…توحید میں کلام کرو، یا میرے سامنے توحید کی شرح کرو): اس سے مؤلف رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ معتزلہ کے ہاں جو توحید کی تعریف ہے، اسے بیان کیا جائے۔ اس لیے کہ معتزلہ کے پانچ اصولوں میں سے ایک توحید ہے۔جس سے ان کی مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرنا ہے۔[1](اس کی تفصیل گزر چکی ہے)۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…جان لیں کہ وہ ’’فرقہ قدریہ ‘‘-یا جہمیہ-سے ہے): اس لیے کہ عام مسلمان جو اہل سنت و الجماعت کے مذہب پر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جن لوگوں نے اس معاملے میں مبالغہ کیا، اور کہا کہ:’’ فلاں انسان مجبور ہے۔‘‘حالانکہ اہل ِ سنت والجماعت میں کوئی بھی انسان تقدیر کے بارے میں مجبور ِ محض ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا۔ تو ایسا الزام لگانے والا انسان ’’قدریہ فرقہ ‘‘ سے ہے۔اس لیے کہ یہی لوگ اپنے مخالفین کو جبریہ ہونے کا الزام دیتے ہیں۔ ایسے ہی جو انسان اہل ِ سنت و الجماعت کے علماء اور عوام کو تکفیری ہونے کا طعنہ دیں تو وہ مرجئہ فرقہ سے ہے۔ اس لیے کہ یہی لوگ اپنے مخالفین کو ایسا طعنہ دیتے ہیں۔ حدیث اور اہل حدیث پر تنقید امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اہل بدعت کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل حدیث پر تنقید کرتے ہیں اور زندیقوں کے نشانی یہ ہے کہ وہ اہل سنت و الجماعت کو ’’حشویہ ‘‘ کہتے ہیں، اور اس طرح احادیث و آثار کو باطل ٹھہرانا چاہتے ہیں اور جہمیہ کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ’’ مشبہہ ‘‘ کہتے ہیں اور قدریہ کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ’’ مجبرہ ‘‘ کہتے ہیں اورمرجئۃ کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ’’ مخالفہ اور نقصانیہ ‘‘کہتے ہیں اور رافضہ کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ’’ناصبہ ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اہل سنت پر ان میں سے کوئی بھی نام موافق نہیں آتا، سوائے ایک نام کے، یعنی اہل سنت والجماعت اور یہ بات محال ہے کہ اتنے سارے نام ایک ہی جماعت میں جمع ہوں۔اسے امام لالکائی نے ’’السنۃ ‘‘ میں نقل کیا ہے(1/179) اس کی سند صحیح ہے۔
[1] اہل بدعت کے ہاں توحید کا مفہوم جاننے کے لیے دیکھیں: ’’الصواعق المرسلۃ‘‘ لا بن القیم رحمہ اللہ (3/939)، و در التعارض ‘‘ لابن تیمیہ رحمہ اللہ (1/224)۔