کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 468
فرقوں کی پہچان و علامات
142 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((وإن سمعت الرجل یقول: [فلان ] مشبِّہ، وفلان یتکلم في التشبیہ، فاتہمہ، واعلم أنہ جمہمي۔وإذا سمعت الرجل یقول: فلان ناصبي فاعلم أنہ رافضي، سمعت الرجل یقول: تکلم بالتوحید، واشرح لي التوحید، فاعلم أنہ خارجي، معتزلي۔ أو یقول: فلان [مجْبِرٌ ]، أو یتکلم بالإجبار، أو یتکلم بالعدل، فاعلم أنہ قدري، لأن ہذہ الأسماء محدثۃ أحدثہا أہل الأہوائ۔))
’’جب آپ کسی آدمی سے سنیں وہ کہہ رہا ہو کہ:’’ فلاں آدمی مشبہ ہے ‘‘ اور فلاں انسان تشبیہ میں کلام کرتا ہے۔ تو اس پر تہمت رکھیں، اور جان لیں کہ وہ جہمی ہے۔
اور جب کسی آدمی سے سنیں وہ کہہ رہا ہوکہ:’’ فلاں آدمی ناصبی ‘‘ ہے، تو جان لیں کہ(یہ بات کہنے والا) رافضی ہے اور جب کسی آدمی سے سنیں وہ کہہ رہا ہو کہ:’’ کہ توحید میں کلام کرو، یا میرے سامنے توحید کی شرح کرو۔‘‘تو جان لیں کہ(یہ بات کہنے والا) معتزلی ہے۔ یا کوئی کہہ رہا ہوکہ فلاں مجبور ہے، یا جبر میں کلام کرتا ہے، یا عدل میں کلام کرتا ہے، تو جان لیں کہ وہ ’’فرقہ قدریہ ‘‘-یا جہمیہ-سے ہے۔ اس لیے کہ یہ نام نئے ہیں جنہیں ان خواہشات کے پجاریوں نے ایجاد کرلیا ہے۔‘‘
شرح: … ’’فلاں مشبہ ‘‘ اس مراد یہ ہے کہ یہ انسان استقامت پر ہو،مگر کوئی دوسرا اسے یہ الزام دے رہا ہو۔ مشبہ تشبیہ دینے والے کو کہتے ہیں۔یہ ایک فرقہ تھا جواللہ تعالیٰ کو صفات کو مخلوق سے تشبیہ دیا کرتا تھا۔ الحمداللہ ان لوگوں کے آثار بھی ختم ہوچکے۔ مگر جہمی فرقہ کے لوگ عوام الناس میں علماء اہل سنت والجماعت کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ان پر یہ الزام لگایا کرتے تھے۔بہر حال ایسے ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان واقعتاً مشبہ ہو، مگر علی الاطلاق بغیر کسی تحقیق کے کسی انسان کو یہ الزام نہیں دیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ فرقہ ختم ہوچکا۔ لوگ اس فرقہ کے نام و کام سے اوراصول و عقائد سے انجان ہوچکے ہیں، اب ان کے وجود کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ سوائے اس کے کہ کوئی بدعتی نیم ملا کتابوں سے چار حرف پڑھ کر پھر سے اہل ِ سنت و الجماعت پر یہ الزام لگانا شروع کردے۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(… کہہ رہا ہوکہ:’’ فلاں آدمی ناصبی ‘‘ ہے):
ناصبی اصل میں وہ لوگ ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اوراہل بیت سے بغض رکھتے اور کو برا بھلا کہا کرتے تھے۔ اس اطلاق کا اصل مصداق خود رافضہ اور پھر ان کے لے پالک خوارج ہیں۔ مگر رافضی حسد و بغض میں جل کر یہ الزام اہلِ سنت والجماعت کو دیتے ہیں، جس سے اہل سنت ایسے ہی بری ہیں جیسے بھیڑیا حضرت یوسف علیہ السلام کے خون سے بری تھا۔