کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 467
((البر حسن الخلق و الاثم ما حاک في صدرک و کرہت أن یطلع علیہ الناس))[1]
’’نیکی اچھا اخلاق ہے، اورگناہ وہ ہے جو آپ کے دل میں کھٹکے، اور آپ یہ بات نا پسند کرتے ہوں کہ لوگوں کو اس کا علم ہوجائے۔‘‘
لیکن یہ اس وقت ہے جب انسان کا نفس فطرت پر قائم ہو۔ اگر گناہوں یا بدعات کی وجہ فطرت مسخ ہوجائے تو پھر انسان ہر چیزکو حلال اور جائز سمجھنے لگ جاتا ہے۔اور اگر کہیں کوئی ایسا موقع آجائے جہاں انسان حلال و حرام میں فیصلہ نہ کرپائے تو اس چیز کے چھوڑ دینے میں ہی خیرہے۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن الحلال بین وإن الحرام بین، وبینہما أمور مشتبہات، فمن التقی الشبہات فقد استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع في الشبہات وقع في الحرام))[2]
’’بیشک حلال بھی واضح ہے اور بیشک حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان چند متشابہ امورہیں۔جو ان متشابہات سے بچا سو اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کرلی، اور شبہات میں واقع ہوا سو وہ حرام میں جا گرا۔‘‘
سو باقی امور کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اگر انسان پر کوئی چیز مشتبہ ہوجائے تو اس کے چھوڑنے کے بغیر حرام سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔
مستور الحال
141 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((والمستور من بان سترہ، و المہتوک من بان ہِتکہ۔))
’’ مستور وہ ہے جس کا ستر واضح ہو، اور مہتوک وہ ہے جس کی ہتک واضح ہو۔‘‘
شرح: … اس پیرائے کی اصل یہ قاعدہ ہے کہ:’’ حکم ظاہر کے مطابق لگایا جائے گا۔‘‘
مستور وہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا ہو، اور یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے کہ لوگوں پر گمان کے مطابق حکم لگایا جائے، اور نہ ہی ان شبہات کے مطابق جن کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ مسلمان کے متعلق اصلی حکم استقامت کا ہے جب تک اس سے کوئی بدعت ظاہر نہ ہو، یا کھلم کھلا گناہ اور فسق و فجورکے کام نہ کرلے۔ اس وقت ہم اس کے ظاہر کے مطابق حکم لگائیں۔ کیونکہ اس نے اپنے نفس سے اللہ تعالیٰ کے پردہ کو چاک کیا ہے۔ اس کی وضاحت پیرایہ نمبر 31 میں گزر چکی ہے۔
[1] رواہ مسلم في صحیحہ، باب: تفسیر البر و الإثم، برقم 6680، و الحاکم في المستدرک، کتاب البیوع، برقم 1272۔
[2] رواہ البخاري، باب: الحلال بین و الحرام بین وبینہما أمور مشبھات، برقم، 1946۔ ومسلم، باب: أخذ الحلال و ترک الشبہات، برقم 4178۔