کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 465
یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَo﴾(التوبۃ: 18)
’’اللہ تعالیٰ کی مسجد وں کی آبادی انہی لوگوں سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور پچھلے دن پر یقین رکھتے ہیں اور نماز کودرستی سے ادا کرتے ہیں اورزکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسیسے نہیں ڈرتے توایسے لوگوں کوراہ پانے کی امید ہوسکتی ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسجد کی آباد کاری کو ایمان کی نشانی بتایا ہے، اور پانچ وقت کے باجماعت نمازکی کوان سات آدمیوں میں شمار کیا ہے جنہیں روزِ قیامت اللہگ اپنے سائے میں جگہ دے گا)ارشاد فرمایا:
((ورجل قلبہ معلق بالمسجد))[1]
’’… اوروہ انسان جس کا دل مسجد کے ساتھ معلق ہے …۔‘‘
جو انسان مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز نہ پڑھتا ہو، اور یہ سمجھتا ہوکہ مسلمان حق پر نہیں ہیں، اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، ایسے شخص کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہونے اور جماعت سے خارج ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں۔
اگر آپ ملاحظہ کریں تو دیکھیں گے کہ ایسے گمراہ نظریات و افکار رکھنے والے لوگ مسجدوں کے قریب بھی نہیں جاتے، اورنہ ہی مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں۔ بلکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کی نماز باطل ہونے کا فتوی دیتے ہیں۔ یہ سب بیماریاں عقیدہ میں خلل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے محفوظ رکھے۔
وضاحت:
شروع اسلام میں مسلمانوں کے مرکز میں باجماعت نماز پڑھانا مسلمان حکمران کی ہی ذمہ داری ہوتی تھی اور ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا انسان ان کی اجازت کے بغیر امام نہیں بن سکتا تھا۔جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابو بکر و عمر، اور عثمان و علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے بعد کے دور میں تھا۔ مرکز سے ہٹ کر باقی علاقوں میں نماز پڑھانے کے لیے حکمران اپنے نمائندے مقرر کرتے تھے۔ گویاکہ نماز کو دینی اور سیاسی امور میں ہر لحاظ سے اولیت حاصل تھی۔ پھر بہت بعد کے حکمران سست روی کا شکار ہوئے، اور نماز ادا کرنے میں غفلت برتنے لگے۔ حتی کہ ہمارا زمانہ ایسا آگیا کہ حکمران کے امام ہونے کا تصور تو دور کی بات اس کا نمازی ہونا بھی سیاست میں عیب اور کمزوری سمجھا جانے لگا۔ بلکہ اب تو کسی نماز کے حاکم ہونے یا حکمران طبقہ میں سے ہونے کا تصور بھی بائد و شائد۔ زہے حرمان ِ نصیبی۔
اسلام کا دعوی کرنے والے بے نماز حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ منافقین کی سب سے بڑی بری صفت جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے،وہ جماعت کے ساتھ نماز سے سستی کرناہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
[1] متفق علیہ ۔