کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 461
اہل آثار ہی حقیقی اہل سنت و الجماعت ہیں جو قرآن وسنت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ سو آثار پر طعن و تنقید کرنا اصل میں دین میں ہی طعن و تنقید ہے، جو کہ بہت بڑی بدبختی اور محرومی ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جب دین کی حفاظت کا ذمہ خود لیا تو اس کے لیے عادل، ثقہ، صاحب ایمان اور اہل علم اور امین لوگ بھی پیدا کیے جو اس دین کو ہم تک پہنچائیں اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا جب تک دین باقی ہے۔
اور جو شخص قرآن و سنت کی نصوص اور سبیل المؤمنین-آثار-سے ہٹ کر دین لینے کی کوشش کرتا ہے، اس کے دین میں شبہ ہے۔اوروہ خواہشات کا پجاری اور مبتدع ہے۔ خواہ وہ اس بات کا شعور رکھے یا نہ رکھے، قصد کرے یا نہ کرے۔
سیاست و شریعت
136 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((واعلم أن جور السلطان لا ینقص فریضۃ من فرائض اللّٰه عزّ و جل التي افترضہا علی لسان نبیہ صلي اللّٰه عليه وسلم، جورہ علی نفسہ: وتطوعک وبرک معہ تام لک-إن شاء اللّٰه [تعالیٰ]-۔یعنی [الجماعۃ ] والجمعۃ معہم، والجہاد معہم، وکل شيئٍ من الطاعات فشارکہ فیہ فلک نیتک۔))
’’یہ بھی جان لیجیے کہ حاکم کا ظلم اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض میں کچھ کمی نہیں کرتا، جو اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرض کیے ہیں۔ اس کا ظلم اس کے اپنے نفس پر ہے اور آپ کی اس کے ساتھ بھلائی، اور نیکی تیرے لیے پوری ہے۔ إن شاء اللہ تعالیٰ۔ یعنی ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی جائے، اور جمعہ پڑھا جائے اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے اور ہر اطاعت کے کام میں ان کے ساتھ شرکت کریں۔ آپ کے لیے آپ کی نیت ہے۔‘‘
شرح: … یعنی حکمران اگر جتنا بھی ظالم ہو، اور لوگوں کے حقوق غصب کرتا ہو، اور ان پر ستم ڈھاتا ہو، ان کے حقوق ضائع کرتا ہو، لیکن وہ کلمہ گو مسلمان اور نمازی ہو، تو اس کے خلاف بغاوت کرنا، اور اس کی حکومت ڈھانے کی کوشش کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔ بلکہ چاہیے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائے اورمشکل حالات میں اس کی مدد کی جائے، اس لیے کہ اس میں عموم امت کے لیے مصلحت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی(22/61) میں فرماتے ہیں: ’’حکمرانوں سے مجرد فسق کی وجہ سے قتال نہیں کیا جائے گا، اگر کوئی ایک قدرت رکھتا ہو تو بعض انواع فسق، جیسے کہ زنا، کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔ ایسے نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جس میں قتل کرنا جائز ہو، اس فعل کے ارتکاب پر آئمہ سے قتال کیا جائے۔ کیونکہ حکمرانوں سے لڑنے کا فساد اس سے بڑھ کر ہے کہ کوئی حاکم کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرے۔