کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 460
پرست ایسا نہیں ہونے دینا چاہتے تھے اور وہ ہر دم انارکی پھیلانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ 4۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو کچھ ہوا، وہ ان کی اجتہادی لغزش تھی۔جس پر وہ اللہ کے ہاں بخشے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کی عام معافی کا اعلان کررکھا ہے، فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌo﴾(آل عمران: 155) ’’جس دن دو فوجیں لڑ گئیں اس دن جو تم میں سے(یعنی مسلمانوں میں سے) بھاگ نکلے ان کو شیطان نے کچھ ان کے کیے کی شامت میں بہکا دیا اور البتہ اللہ نے ان کو معاف کر دیا بے شک اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے۔‘‘ 5۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں نہ صرف اپنی زبانوں کو قابومیں رکھنا چاہیے، بلکہ اپنی سماعت و بصارت کو اور دل کو بھی ضبط میں رکھے۔ نہ ہی ان کے خلاف کوئی بات سنے، نہ ہی پڑھے، اور دیکھے، اور نہ ہی ان کے خلاف سوچے یا دل میں کوئی ایسا خیال لائے۔ اگر ایسا خیال آبھی جائے تو انسان کو چاہیے کہ اپنے لیے بھی توبہ و استغفارکرے اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بھی، یہی حکم الٰہی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَائُوا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌo﴾(الحشر: 10) ’’اور وہ لوگ جو ان(مہاجرین اور انصار) کے بعد(مسلمان ہوکر) آئے وہ یہ دعا کرتے ہیں مالک ہمارے ہم کو بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جوہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اورہمارے دل میں مسلمانوں کی طرف سے میل(کینہ)مت آنے دے مالک ہمارے بے شک تو بڑی شفقت والا مہربان ہے۔‘‘ منہج سلف ِ صالحین 135 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وإذا سمعت الرجل یطعن علی الآثار، [أو یردُّ الآثار ]، أو یرید غیر الآثار، فاتہمہ علی الإسلام، ولا [تشک ] أنہ صاحب ہوی مبتدع۔)) ’’جب آپ کسی آدمی کو سنیں کہ وہ آثار میں طعن کررہا ہو، یا آثارکو رد کررہا ہو۔ یا احادیث چھوڑ کر کسی اور راہ کو اختیار کررہا ہو، تو اس کے اسلام پر تہمت رکھیں اور اس میں کوئی شک نہ کریں کہ وہ خواہشات کا پجاری مبتدع ہے۔‘‘ شرح: … آثار سے مراد یہاں پر قرآن و سنت کی نصوص اور سلف ِ صالحین کے اقوال ہیں جو کہ مناہج دین اور اصول اعتقاد کے بارے میں وارد ہوئے ہیں۔اور جو کوئی آثار پر طعن کرتا ہے، وہ حقیقت میں اہل آثار پر طعن کرتا ہے۔