کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 458
وقولہ: ’’ ذروا أصحابي، لا تقولوا فیہم إلاخیراً۔‘‘و لا تحدث بشيئٍ من زللّٰهم ولا حربہم ولا ما غاب عنک علمہ، زلا [تسمعہ] من أحد یحدث بہ، فإنہ لا یسلم قلبک إن سمعت۔)) ’’جب آپ کسی کو دیکھیں کہ کوئی شخص اصحاب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کررہا ہو، تو جان لیجیے کہ وہ انتہائی بری بات کہنے والا خواہش نفس کا پجاری ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا پتہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد کیا لغزشیں پیدا ہوں گی۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کے بار ے میں خیر اور بھلائی ہی کی بات کہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ میرے صحابہ کو چھوڑ دو، اور ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ کہو۔‘‘[2] ان کی لغزشوں اور جنگوں کے بارے میں آپ کچھ بھی نہ کہیں اور نہ ہی ان کا جو علم آپ سے غائب رہااور کوئی ان کی برائی بیان کررہا ہو تو اسے سنیں بھی نہیں، کیونکہ اگر آپ نے ایسی باتیں سن لیں، تو آپ کا دل سلامت نہیں رہے گا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوراہلسنت و الجماعت شرح: …مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(خواہش نفس کا پجاری ہے…): یعنی جو کوئی بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہے، وہ خواہشات کا پجاری ہے، راہ حق سے ہٹا ہواہے۔ اللہ کا فرمان ہے: ﴿فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَہْوَآئَ ہُمْ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰیہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾(القصص: 50) ’’پھر اگر وہ آپ کی بات نہ مانیں توسمجھ لے کہ وہ اپنی خواہش پر چلنا چاہتے ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بن بتلائے اپنی خواہش پر چلے اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا بے شک اللہ تعالیٰ(اسے)بے انصاف لوگوں کور اہ نہیں لگاتا۔‘‘
[1] مذکورہ اثر کی تخریج کے لیے دیکھو: أخرجہ الطبرانی فی الکبیر (10/ 243- 244)، و أبو نعیم فی الحلیۃ (4/ 108)، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۔ اس حدیث کے کئی صحابہ سے شواہد ہیں، امام البانی رحمہ اللہ نے ’’ السلسلۃ الصحیحۃ ‘‘(34) میں ان کا احاطہ کرتے ہوئے پوری طرح نقل کیا ہے ۔ [2] ’’ یہ اصل میں حدیث کے دو ٹکڑے دو علیحدہ علیحدہ حدیثوں میں ہیں، اس کا پہلا جزء: ’’ ذروا أصحابي …‘‘ اسے بزاز نے نقل کیا ہے، دیکھیں: کشف الاستار (3/ 290)۔ اس کی سند حسن ہے ۔ یہاں پر یہ لفظ ہیں: ’’دعوا لی أصحابی۔‘‘ ’’میرے صحابہ کو چھوڑ دو، اور حدیث کا دوسرا حصہ: ’’ لا تقولوا فیہم إلا خیراً)) ’’ ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ کہو۔‘‘اسے خیثمہ بن سلیمان نے ’’فضائل الصحابہ ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ یہ جز دوسرے الفاظ میں ’’لا تسبوا أصحابی‘‘ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے، اس کی سند ضعیف ہے۔’’جزء طرق الحدیث … لا تسبوا أصحابی‘‘ ص 70۔