کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 452
’’اے ایمان والو! بیشتر مواقع پر بد گمانی سے بچو، کیونکہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں۔اور بھید نہ ٹٹولا کرو۔‘‘
ایک حدیث شریف میں ہے:
((إیّاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث))[1]
’’خود کو بدگمانی سے بچاؤ، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘
اس حدیث کی روشنی میں مسلمان کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ بھی گمان نہ کرنا چاہیے جب تک کہ اس سے استقامت کے خلاف کوئی کام نہ ظاہر ہو۔ اگر پھر بھی اس سے کوئی عملی کوتاہی یا گناہ ہوجاتا ہے، تو اسے نصیحت کرنے ساتھ اس کے عیب اور برائی کا پردہ رکھنا چاہیے، حدیث شریف میں آتا ہے:
((ومن ستر مسلماً سترہ اللٰہ یوم القیامۃ))[2]
’’اور جوکوئی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کا پردہ رکھیں گے۔‘‘
ہاں اگر کسی شخص سے بدعت یا کھلا ہوا فسق اور فجور ظاہر ہو تو ایسی صورت میں جو انسان اس کی حرکات دیکھے، یا اسے ان حرکتوں کا علم ہو، تو اس کے لیے جائزہے کہ اس انسان کے بارے میں تحقیق و دریافت کرے اور پھر جو معاملہ اس سے ظاہر ہوا ہے، اس کے مطابق اس سے برتاؤ کیا جائے گا۔
علم باطن
علوم کا اصل منبع و مصدر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اوران کو بھی اس طرح سمجھنا چاہیے جیسا کہ حضرات ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان نصوص کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ہے۔ ان کے منہج سے ہٹ کر جتنی بھی خود ساختہ راہیں اختیار کرلی جائیں، ساری کی ساری خالص گمراہی اور نرا فتنہ ہی فتنہ ہیں۔ ان ہی گمراہیوں میں سے ایک علم ِ باطن کا دعوی بھی ہے۔
اگر کوئی عقل مند گہری نظر سے دیکھے تو علم باطن کا دعوی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی پر طعن اورالزام ہے۔ اس لیے کہ علم باطن کا دعوی کرنے سے لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باطنی علوم تو صرف ایک یا دو صحابیوں کو سکھائے، اور باقی ظاہری علوم بقیہ صحابہ کرام کو تعلیم کیے۔ جب کہ باطنی علم کی موجودگی میں ظاہری علم کی مثال پھل اور چھلکے کی ہے۔
ایسا کہنا اس وقت شروع ہواجب لوگوں نے قرآن و حدیث میں اپنی دلچسپی کم کردی تو مختلف قسم کے گمراہ فرقوں نے سر اٹھایا، اور مختلف قسم کے دعوے کرنے لگے۔ ان دعووں میں سے ایک علم باطن کا دعوی بھی ہے۔ آغا خانی، اسماعیلی،
[1] البخاری، باب: ما یُنہی من التحاسد و التدابر، برقم:6064۔وفي أدب المفرد، باب: الشحناء، برقم 410۔موطأ امام مالک، باب: ما یکرہ من الکذب و سوء الظن والتجسس و النمیمۃ، برقم: 894۔
[2] سنن ابن ماجۃ، باب: الستر علی المؤمن ودفع الحدود بالشبہات، برقم 2544۔و ابوداؤد، باب المؤاخاۃ، برقم 4895۔ والترمذی، باب الستر علی المسلم برقم 1426/ صححہ البانی۔