کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 451
خوارج اور معتزلہ کے أصول اسلام میں سب سے پہلے رونما ہونے والے فرقے خوارج اور پھر معتزلہ نے جن امور میں ابتدائی طور پر اختلاف کیا تھا ان میں سے ایک امر بالمعروف کا معاملہ بھی ہے۔ ان لوگوں کا اعتراض تھا کہ مسلمان حکمران اب امر بالمعروف کا فریضہ انجام نہیں دے رہے۔ پھر چلتے چلتے اس چیز نے ان کے مذہب کی مبادیات اور اصول کی شکل اختیار کرلی اور وہ ان امور کی من پسند تأویل کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام سے بالکل دور ہوگئے۔ خوارج اور معتزلہ کے پانچ أصول ہیں: اوّل: امر بالمعروف و نہی عن المنکر: … اس سے ان کی مراد مسلمان حکمران کے خلاف(کسی بھی گناہ کی وجہ سے) بغاوت کرنا(اور جنگ و جدال کا بازار گرم کرنا)ہے۔ اسے وہ امر بالمعروف کا نام دیتے ہیں۔ دوم: التوحید: … اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی نفی کرنا۔ اس لیے کہ ان کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء و صفات کا اثبات شرک سمجھا جاتا ہے۔ سوم: عدل: … اس کا معنی ہے تقدیر کی نفی کرنا۔ کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے، اور اس نے ان کی تقدیر میں گناہ بھی لکھ دیا ہو،تو یہ ان پر ظلم ہوگا۔ چہارم: منزلۃ بین المنزلتین: …(دو منزلوں کی درمیانی منزل)۔یعنی ان کا کہنا ہے کہ کبیرہ گناہ مرتکب(جیسے زانی، شرابی) نہ ہی اسے کافر کہاجائے گا، اور نہ مسلمان۔بلکہ اس کا ٹھکانہ کفر و اسلام کی دومنزلوں کے درمیان ہے۔ پنجم: انفاذ الوعید: … اس سے مراد شرک سے کم درجہ کے کبیرہ گناہ کے مرتکب پر کفر کا فتوی لگانا ہے۔ مستور الحال 131 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والمستور من المسلمین من لم تظہر لہ ریبۃ۔)) ’’مسلمانوں میں مستور الحال وہ ہے جس کے بارے میں کوئی شک نہ ظاہر ہوا ہو۔‘‘ شرح: … اس پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ ایک اہم قاعدہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ مسلمانوں میں اصل-عقیدہ و ایمان کی-سلامتی ہے اور یہ کہ ان کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے۔یعنی جب تک وہ اسلامی شعائر ادا کررہا ہے، اس کے مسلمان ہونے کا حکم ہی لگایا جائے گا۔اور ظاہر سے ہٹ کر بغیر اسباب کے کسی شخص کے بارے میں خواہ مخواہ چھان بین کرنا اور اس کے بھید کریدنا جائز نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا ﴾(الحجرات: 11۔ 12)