کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 45
﴿وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْنَہُمْ وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ أُورِثُوا الْکِتَابَ مِن بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ﴾ (الشوری:14) ’’ اور یہ لوگ جو الگ الگ ہوئے ہیں تو علم(حق) آچکنے کے بعد آپس کی ضد سے(ہوئے ہیں) اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لیے بات نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کر دیا جاتا اور جولوگ ان کے بعد(اللہ کی) کتاب کے وارث ہوئے وہ اس(کی طرف) سے شبہے کی الجھن میں(پھنسے ہوئے) ہیں۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: ((إن اللّٰہ یرضی لکم ثلاثاً ویکرہ لکم ثلاثاً۔ أن تعبدوہ و لا تشرکوا بہ شیئاً، وأن تعتصموا بحبل اللّٰه جمیعاً، ولا تفرقوا))[1] ’’ یقیناً اللہ تعالیٰ تین کاموں سے تم پر راضی ہوتا ہے، اور تین کاموں کو تمہارے لیے نا پسند کرتاہے۔(جوکام اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، ان میں سے): یہ کہ تم اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤاور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رہو، اور آپس میں اختلاف نہ کرو۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے: ((من فارق الجماعۃ قید شبر، فقد رِبقۃ الإسلام من عنقہ))[2] ’’ جو جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی علیحدہ ہوا، اس نے اپنی گردن سے اسلام کا طوق اتار دیا۔‘‘ جماعت ِ حق سے علیحدہ ہونے والوں کے لیے یہ بہت ہی سخت وعید ہے۔اگر یہ علیحدگی عقیدہ میں ہو، اس طرح سے کہ غیر اللہ کی بندگی کی جائے تو پھر یہ کفر ہے، اس کا انجام خطرناک ہے۔ اگر عقیدہ میں ان سے دوری نہ ہو، دیگر اعمال میں ہو، تو پھر بھی نری گمراہی ہے۔ خواہ جو بھی حالت ہو جماعت سے علیحدہ ہونے میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہے۔ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما نے مکہ مکرمہ میں نماز ظہر کی امامت کرائی اور پھر کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے، اور فرمایا:’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’ لوگو خبر دار ہوجاؤ ! تم سے پہلے اہل کتاب بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور یہ امت عنقریب تہتر فرقوں میں
[1] موطأ إمام مالک، باب ماجاء في إضاعۃ المال و ذي الوجھین ح:1796۔ مسلم:باب النہي عن کثرۃ المسألۃ، ح:1715۔ [2] صحیح، أخرجہ الترمذي(2863)، أحمد (4/ 130)والحاکم (404)۔