کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 449
’’ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو طہارت حاصل کرتا ہو، اوراچھی طرح سے طہارت حاصل کرتا ہو، پھر ان میں مساجد میں سے کسی ایک مسجد کا قصد کرے، مگر اس کے لیے اللہ تعالیٰ ہر قدم چلنے کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں، اور اس کا ایک درجہ بلند ہوجاتاہے، اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔‘‘ ’’جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس امن کی حالت میں آئے، اسے چاہیے کہ ان پانچ نمازوں کو ادا کرنے کے لیے آئے جہاں سے بھی ان کے لیے ندا لگائی جائے۔ بیشک یہ ہدایت کی سنت ہیں، اور ان سنتوں میں سے ہیں جوتمہارے نبی نے تمہارے لیے مقرر کی ہیں اور یہ نہ کہے کہ میرے گھر میں مصلی ہے، میں وہ پر نماز پڑھ لیتا ہوں، بیشک اگر تم ایسا کروگے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے، اور اگر اپنے نبی کی سنت چھوڑ دو گے تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ اس ذات کے قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ہم نے خود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیکھا ہے، اس نماز سے سوائے کھلے ہوئے منافق کے کوئی بھی پیچھے نہیں رہتا تھا۔ یہاں تک کہ کسی بیمار آدمی کو دو آدمیوں کے درمیان سہارا دیکر لایا جاتا، یہاں تک کہ اسے صف میں کھڑا کردیاجاتا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا نماز کے بارہ میں یہ عقیدہ اورعمل تھا۔ جو کوئی چل نہ سکتا، اسے گھسیٹ کر لایا جاتا مگر وہ جماعت کے ساتھ نماز نہ چھوڑتا۔ ایسے ہی نمازِ جمعہ کا چھوڑنا غفلت، اور دل پر مہر لگ جانے اور اس کی سختی کا سبب ہے، جس کے بعد انسان کا ہدایت پر آنا مشکل ہوتا جاتاہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لینتھین أقوام عن ودعھم الجمعات، أو لیختمن اللّٰه علی قلوبھم، ثم لیکونن من الغافلین))[1] ’’لوگوں کو جمعہ چھوڑنے سے باز آجانا چاہے، نہیں تو اللہ تعالی ان کے دلوں پر مہر لگا دیں گے،اور وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔‘‘ پہلی حدیث کے آخر میں خوف اور عذر کی حالت میں باجماعت نماز سے پیچھے رہ جانے کی اجازت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یا تو ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے انسان بالکل کسی طرح بھی چلنے کے قابل ہی نہ ہو۔ یا چلنے سے مرض بڑھنے کا اندیشہ ہو۔یا ایسے حالات ہوں کہ مسجد کے لیے نکلتے ہوئے دشمن کا خوف ہو کہ جان ہی چلی جائے گی۔ یاایسا علاقہ ہو جہاں درندوں وغیرہ کا خوف ہو، تو اس صورت میں گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ امام کی اقتداء 129 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ومن صلی خلف إمام فلم یقتد بہ فلا صلاۃ لہ۔)) ’’جس نے امام کے پیچھے نماز پڑھی، اور اس کی اقتداء نہیں کی، اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔‘‘
[1] مسلم، باب: التغلیظ في ترک الجمعۃ برقم 2039۔صحیح ابن حبان، باب: صلاۃ الجمعۃ، برقم 2785۔ السنن الصغری، باب فرض الجمعۃ، برقم 601۔ سنن النسائي، باب: التشدید في التخلف عن الجمعۃ برقم 1370۔