کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 448
جمعہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہے۔جمعہ عبادت کااجتماع ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے نہ صرف کئی معاشرتی مسائل کے حل کرنے میں مدد ملتی ہے، بلکہ اس سے مسلمانوں کی شان و شوکت بڑھتی ہے، اور دشمن پر ان کی دھاک بیٹھتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ جمعہ کی روح فوت ہوچکی ہے۔ خطباء نے اسے اپنے جوش ِخطابت کے اظہار کا ذریعہ بنالیا ہے۔ ورنہ حکم یہ ہے کہ لوگ جمع کے دن پہلے وقت میں جمع ہوجائیں۔ خطیب صاحب خطبہ مختصر رکھیں اور نماز لمبی کریں اورخطبہ میں لوگوں کو قصے کہانیاں سنانے کے بجائے شرعی مسائل اور پیش آمدہ ضروریات و واقعات اور مسائل سے آگاہ کریں۔
نما ز با جماعت کا مسئلہ
پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنے کے لیے آزاد، عاقل، بالغ، اور تندرست مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانچ وقت باجماعت نماز مسجد میں ادا کرے۔ آذان کی آواز سن کر گھر میں یا اکیلے(دکان وغیرہ پر) نماز پڑھنے والے کی نماز درست نہیں ہوتی، اور مسجد سے کچھ فاصلے پر اپنی جماعت کھڑی کرلینا بھی درست نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من سمع النداء فلم یجب فلا صلاۃ لہ إلا من عذر))۔قیل: وما العذر یا رسول اللّٰه ! قال:((خوف أو مرض))[1]
’’جس نے آذان کی آواز سنی اور اسے قبول نہ کیا(مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہ گیا) اس کوئی نماز نہیں ہوتی، سوائے عذر کے۔‘‘آپ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ! عذر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’ خوف یا بیماری۔‘‘
یعنی بغیر عذر کے جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کی نماز صحیح نہیں ہے۔یہ حدیث با جماعت نماز کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((من سرہ أن یأتی اللّٰه تعالی آمنا فلیأت ہذہ الصلوات الخمس حیث یؤذن لہا، فإنہن من سنن الہدی، ومما سنہ لکم نبیکم صلی اللّٰه علیہ وسلم، ولا یقل:إ ن لی مصلي فی بیتی، فأصلی فیہ، فإنکم إن فعلتم ذلک ترکتم سنۃ نبیکم صلی اللّٰه علیہ وسلم، ولو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم، والذی نفسی بیدہ، لقد رأیتنا فی زمن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وما یتخلف عنہا إلا منافق بین النفاق، حتی کان الرجل المریض یہادی بین الرجلین، حتی یقام فی الصف))[2]
[1] سنن الترمذی،باب: ماجاء فیمن یسمع النداء فلا یجیب، برقم 217۔ و ابن ماجۃ، باب: التغلیظ في التخلف عن الجماعۃ، برقم 790، والحاکم في المستدرک، باب: التأمین، برقم 895۔و صحح ابن حبان و الألباني۔
[2] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب صلا ۃالجماعۃ من سنن الہد ی حدیث: 1081۔ المطالب العالیۃ للحافظ ابن حجر العسقلانی،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجماعۃ،حدیث: 423۔ ومستخرج أبی عوانۃ، مبتد أ أبواب مواقیت الصلاۃ، ابتدأا بواب الصلوات وما فیہا، بیان إیجاب إتیان الجماعۃ و الفریضۃ إذا نودی بہا بسکینۃ ووقار وحظر، حدیث: 986۔ وفیہ: ((وما کان رجل یتطہر فیحسن الطہور، ثم یعمد إلی مسجد من ہذہ المساجدإ لاکتب اللّٰه لہ بکل خطوۃ یخطوہا حسنۃ ویرفعہ بہا درجۃ ویحط عنہ بہا سیئۃ))۔