کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 447
عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یا أیہاالناس! أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصلوا الأرحام، وصلوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنۃ بسلام))[1] ’’ اے لوگو! سلام کو عام کرو، اور کھانا کھلاؤ،اور صلہ رحمی کرو، اور رات کو جب لوگ سور ہے ہوں اس وقت نماز پڑھو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘ نماز جمعہ کی اہمیت 128 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ومن ترک [ صلاۃ الجمعۃ ] والجماعۃ في المسجد من غیر عذر، فہو مبتدعٌ۔ والعذر: کمرض لا طاقۃ لہ بالخروج إلی المسجد، أو خوف من سلطان ظالم، وما سوی ذلک فلا عذر لہ۔)) ’’جس نے جمعہ کی نماز چھوڑ دی، اور بغیر کسی عذر کے مسجد میں باجماعت نماز ترک کر دی، وہ مبتدع ہے اور عذر یہ ہے کہ: ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے مسجد کی طرف نکلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، یا کسی ظالم حکمران کا خوف ہواور اسکے علاوہ کوئی عذر نہیں ہے۔‘‘ شرح: … مقصود یہ ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر جمعہ اور جماعت چھوڑ دے، سستی اور تساہل سے نہیں۔ یا کسی خاص امام(مذہب یا سلسلہ)کا پیروکار ہونے کی وجہ سے دوسرے مسلمان کے پیچھے نماز ترک کردے۔ یہاں پر شیخ کے کلام سے مقصود اہل بدعت کے کچھ گروہ ہیں جو آئمہ اہل ِ سنت کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کا باجماعت نماز ترک کرنا ان کے بدعتی ہونے کی نشانی ہے۔ نماز کا باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔جب کہ جمعہ کی تاکید تو بہت ہی زیادہ ہے۔مسلمان پر واجب ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ حاضر ہوکر جمعہ کی نماز ادا کرے۔ باجماعت نماز کا پڑھنا انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔فرمان ِ الٰہی ہے: ﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo﴾(الجمعہ: 9) ’’مسلمانو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ کی یاد(نماز) کی طر ف دوڑ پڑواور خرید وفروخت چھوڑ دو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔‘‘
[1] الترمذی، بدون ذکر الباب، برقم 2485، حاکم في المستدرک، برقم 4283، ابن ماجۃ، باب: ماجاء في قیام اللیل، برقم 1334، وباب: إطعام الطعام برقم 3251۔ / صحیح ۔شعب الإیمان برقم: 3361۔وقال الألباني: صحیح ۔