کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 445
کیا جائے، مثال کے طور پر: والی یا حاکم کاخوف ہو، تو اس صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حسب مصلحت ہی واجب ہوں گے۔ ایسے موقع پر خوش اسلوبی اور نرم مزاجی اور حکمت کے ساتھ نصیحت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔اور اگر اس پر بھی خوف اور اندیشہ لاحق ہو تو دل سے برا سمجھا جائے۔اس سے کم تر ایمان کا درجہ کوئی نہیں ہے۔ سلام کرنے کا حکم 127 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والتسلیم علی عباد اللّٰه أجمعین۔)) ’’اور اللہ کے تمام بندوں کو سلام کرنا واجب ہے۔‘‘ شرح: …مصنف کا قصد مسلمانوں پر سلام کرنا ہے۔اسلامی شعائر میں سے ایک آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرنا ہے اور قیامت کے نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ سلام آپس میں جاننے والوں کے درمیان محدود ہوجائے گا۔ جب کہ حکم یہ ہے کہ ہر مسلمان کو سلام کیا جائے۔ یعنی جب بھی دو مسلمان آپس میں ملیں تو ایک دوسرے کو بات کرنے سے پہلے سلام کریں، یعنی ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہیں، اور اس سے ہاتھ ملائے، اور سننے والا جواب میں’’ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘کہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَإِذَا حُیِّیْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا﴾(النساء: 86) ’’جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس سے اچھاجواب دو، یا اس جیسا ہی جواب دو۔‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر سلام کرنے والے نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہا ہے تو آپ جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کردیں اوراگر اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا ہے تو آپ اس کے لیے ساتھ میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اس کی خیر وعافیت دریافت کرلیں۔ ایسے ہی اگر انسان اپنے گھر میں بھی داخل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے گھروالوں پر سلام کرے، اور ان سے خیر و عافیت دریافت کرے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo﴾(النور: 61) ’’ پھر جب تم گھروں میں(کھانے کے لیے)گھسنے لگوتو اپنے لوگوں کو سلام کرو۔ یہ ایک اچھی دعا ہے اللہ کی طرف سے(یعنی اللہ نے اس کا حکم دیاہے)برکت والی پاکیزہ اللہ یونہی(اپنے) حکم تم سے کھول کھول کر بیان کرتاہے اس لیے کہ تم عقل آئے(یا تم سمجھو)۔‘‘ جب بھی مسلمان آپس میں ملیں تو انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کو سلام کریں۔