کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 444
یبعث علیم عقابا منہ ثم تدعونہ فلا یستجاب لکم))[1]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور بالضرور بھلائی کا حکم دو گے، اور برائی سے منع کروگے، یا پھر قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب مسلط کردے، تم اسے پکارو، او ر وہ تمہاری دعاکو نہ سنے۔‘‘
سو یہ تو حتمی بات ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا مسلمان پرواجب ہے۔ اس کا سب سے پہلا مرحلہ خود اپنے ہاتھ سے برائی کو روک دینے کا ہے۔ جیساکہ حدیث میں آیا ہے۔یعنی جو کوئی حاکم ہو، یا کسی علاقے کا بڑا ہو، انتظامی ذمہ دار ہو، یا وہ اسلامی حکومت کے وہ محکمہ جات جن کی ذمہ داری اس بات کی لگائی گئی ہو، انہیں چاہیے کہ وہ اس میں بالکل سستی کا مظاہرہ نہ کریں، اور نہ ہی اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف آڑے آئے۔ گھرکا بڑا انسان یا گھرانے کا ذمہ دار اپنے گھر کے اندر برائی سے اپنے ہاتھ سے روکے اور جو کوئی اس کا اہل نہ ہو، اسے چاہیے کہ نصیحت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی زبان سے منع کرے اور حلال و حرام واضح کرے۔ ایسا کرنا واعظین، مبلغین، مدرسین اساتذہ، خطباء اڑوس پڑوس کے لوگوں کا حق ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ کی نافرمانی پر خاموش نہ رہیں، بلکہ لوگوں کو سمجھائیں۔ اس میں تحریری، تقریری اور سمعی و بصری وسائل(میڈیا) وغیرہ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں، اور میڈیا کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اللہ کے جوابدہی کے لیے تیاری کرلیں، اور برائیوں روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اور جب اس کی بھی طاقت نہ ہو، تو انسان برائی پر راضی نہ ہو جائے، بلکہ اسے برائی سمجھ کر اس سے ناراضگی کا اظہار کرے بھلے وہ اپنے دل کے اندر ہی ایسا کیوں نہ سوچ رہا ہو۔ یہ سب سے ادنی حد ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیعُوْا﴾(التغابن: 16)
’’تو(مسلمانو) جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور(اسکا حکم) سنو اور مانو‘‘۔
جب انسان نہ ہی ہاتھ سے برائی کو روک سکے، نہ ہی زبان سے منع کرے،اور نہ ہی دل میں اسے برا جانے، تو یہ اسکے ایمان سے خالی ہونے کی دلیل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ولیس وراء ذلک من الإیمان مثقال حبۃ من خردل))[2]
’’ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں رہتا۔‘‘
اگراس بات کا اندیشہ ہو کہ ہاتھ سے روکنے کی صورت میں قتل کردیا جائے گا، یا مار پیٹ ہوگی، تو پھر زبان سے منع
[1] الجامع الترمذي، ح: 2169 باب، ما جاء فی الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر۔قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن، قال الشیخ الألبانی: حسن۔
[2] المعجم الکبیر 10/13،ح: 9783۔شعب الإیمان للبیہقي 6/86، ح: 7560۔ صحیح ابن حبان 14/73، ح: 6193، قال شعیب أرناؤوط: أسنادہ قوي۔