کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 442
﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo﴾(التوبۃ: 71)
’’اور مؤمن مرداورمؤمن عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں اچھی بات سکھلاتے ہیں اور بُری بات سے منع کرتے ہیں اورنماز کودرستی کے ساتھ(وقت پرجماعت سے) ادا کرتے ہیں اورزکوٰۃ ادا کریتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کا کہا مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ زبردست ہے حکمت والا۔‘‘
امر بالمروف ترک کرنے کی سزا
جب کہ اس کے برعکس برائی پر خاموش رہنا، اورنیکی کا حکم نہ دینا منافقین کی صفت بیان کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُتٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ﴾(التوبۃ: 67)
’’منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کو بُری بات(کفر اورگناہ)کرنے کا حکم دیتے ہیں، اور اچھے کام کرنے سے منع کرتے ہیں، اور(خرچ کرنے کا وقت آئے تو)مٹھیاں بند کر لیتے ہیں(ایک پیسہ اللہ کی راہ میں نہیں خرچتے)۔‘‘
یعنی خرچ کرنا ان پر بہت گراں گزرتا ہے، اور مال ان کے ہاں ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہے، جب کہ مؤمنین اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اپنے مال سے زکواۃ اور صدقات دیتے ہیں۔لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے منع کرتے ہیں۔یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں تاکہ معاشرہ سے برائیوں کا خاتمہ ہو، اور اللہ کا دین غالب اور قائم رہے۔
کسی انسان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اور پھر کہے کہ میں تو صرف اپنے نفس کا ذمہ دارہوں۔ بلکہ اس پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی یہ صفت بیان کی ہے:
﴿وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo﴾(العصر: 1۔ 3)
’’عصر کے وقت کی(یا نماز کی یا زمانے کی)قسم۔بے شک سب آدمی گھاٹے ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے اورایک دوسر ے کوحق پر چلنے کی نصیحت کرتے رہے اور(مصیبت میں) صبر کرنے کے لیے کہتے رہے۔‘‘