کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 441
امر بالمعروف کی ذمہ داری 126۔مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والأمر باالمعروف، والنہی عن المنکر واجب إلا من خفت سیفہ و عصاہ۔)) ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔ سوائے اس انسان کے جس کی لاٹھی یا تلوار کا خوف محسوس ہو رہا ہو۔‘‘ شرح: … امر بالمعروف اسلامی شعائر میں سے ایک شعیرہ(نشانی) اور فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کام کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے اور اس فریضہ کی انجام دہی کو ایمان کی نشانی بتایا گیا ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ، وإن لم یستطع فبلسانہ، وإن لم یستطع فبقلبہ، وذالک أضعف الإیمان))[1] ’’جوکوئی تم میں سے برائی کی بات دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے اپنی زبان سے منع کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا کم ترین درجہ ہے۔‘‘ قرآن مجید میں اس امت کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی وجہ سے بہترین امت کہا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾(آل عمران: 110) ’’لوگوں کے(فائدے اور صلاح) کے لیے جتنی امتیں پیدا ہوئیں ان سب میں تم بہتر ہو تم اچھا کام کرنے کا حکم دیتے ہو اور برے کام سے منع کرتے ہو اور اللہ ایمان لاتے ہو۔‘‘ اسلام نے انسان کویہ حق ہی نہیں دیاکہ وہ شریعت کی خلاف ورزی کر نے والے کومنع کرے بلکہ اس کام کو ایک اہم دینی فریضہ کا درجہ دیا ہے۔اللہ گ فرماتے ہیں: ﴿ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾(آل عمران: 103) ’’ تم میں ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی دعوت دیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے منع کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[1] مسلم، باب بیان کون النہی عن المنکر من الإیمان وأن الإیمان یزید وینقص وأن الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر واجبان: 186۔