کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 438
اگرایسا نہیں ہے، عام امام مسجد یا خطیب ہے، اور وہ خالص بدعتی عقیدہ پر تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں، اور ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھی جائے گی۔ ایسے رافضی کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز بھی دوبارہ پڑھی جائے گی۔
اگر یہ عام امام بدعتی نہیں فاسق ہے، تو اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا اس کے پیچھے نماز درست ہوگی یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں:
اوّل: … امام ہونے کے لیے عادل ہونا شرط ہے اور فاسق انسان(کبیرہ گناہ کا مرتکب) عادل نہیں ہوتا، لہٰذا نہ ہی اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے، اور نہ ہی اسے امام بنایا جائے۔
دوم: … جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے، اور نماز بھی پڑھتا ہے، اگر اس کی یہ نماز خود اس کے حق میں درست ہے، تو دوسرے کو نماز پڑھانا بھی درست ہے، اسکے پیچھے نماز ہوجائے گی۔
دراوی کہتا ہے:(نماز فاسق کے پیچھے تو ہوجائے گی اگریہ اتفاقیہ معاملہ ہو، جیساکہ دوران سفر راستوں کی مساجد میں نماز پڑھنے کا موقع آجائے)۔ ورنہ مسجد کے مستقل امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عادل ہو۔فاسق انسان کو مستقل امام بنالینا کسی طرح بھی درست نہیں ہے، چاروں مذاہب ِ اہل سنت کاامامت کی شروط میں سے ایک شرط عادل ہونے پر اتفاق ہے۔ تو پھر اس کو نافذ کرنا بھی لازمی ہے۔فاسق انسان جیسے: داڑھی منڈھا، سگریٹ نوش، وغیرہ نہ ہی اس کی امامت درست ہے نہ ہی اقامت، اورنہ ہی آذان، مگر لوگوں میں یہ مرض اس قدر پھیل چکا ہے کہ وہ اس کی شروط سے بالکل لاعلم ہوتے جارہے ہیں، واللّٰه المستعان)۔
اہل علم کو چاہیے کہ وہ اتفاقیہ طور پر بھی بدعتی اور فسق و فجور میں مبتلا آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھے، کیونکہ اس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوگی، اور اسے لوگوں میں یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ فلاں عالم نے میرے پیچھے نماز پڑھی ہے، اور اس طرح لوگوں کو دھوکہ دے گا۔ یہ عالم کے جاننے والے شریک سفر اسے جواز سمجھ کر بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کردیں گے۔ نماز جتنی ہی اہم ترین عبادت ہے اس کی حفاظت کے لیے اتناہی ضروری ہے کہ انسانی باقی شرطوں(جیسے کہ طہارت، استقبال قبلہ وغیرہ)کے ساتھ ساتھ امامت کے درست ہونے کی شرائط پر بھی توجہ دے۔ خصوصاً اس دور میں جب بدعات اور فسق وفجور پھیل رہے ہیں، اہل علم علمائے کرام اور طلبہ، دین دار طبقہ مساجد کے نگران حضرات اور باقی لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ امامت کی شروط لوگوں کو سمجھائیں، اور صرف ایسے انسان کو امام بنائیں جو سنت کا پابند ہو، بھلے اس کے پاس تھوڑا ہی علم ہو، مگر وہ بدعات اور کھلے ہوئے فسق و فجور سے بچ کر رہنے والا ہو۔ کیونکہ ایک فاسق امام کی وجہ سے پورے کے پورے دین دار طبقہ کی بدنامی بھی ہوتی ہے، اور انہیں خواہ مخواہ کی ذہنی اذیت بھی اس وقت پہنچتی ہے جب یہ سنا جاتا ہے کہ فلاں امام نے ایسے کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کی سمجھ دے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔