کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 437
ملازم اور خادم۔ حالانکہ یہ سب سے زیادہ متقی، اللہ سے ڈرنے والے اوراس پر توکل کرنے والے تھے۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ایسا کسب جس میں کچھ حقارت ہو، لوگوں کا محتاج بن کر بیٹھ جانے سے بہتر ہے۔‘‘
اہل بدعت کا بیان
124۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((والصلوات الخمس جائزۃ خلف من صلیت خلفہ، إلا أن یکون [ جھمیاً]، فإنہ معطل، فإن صلیت خلفہ فأعد صلاتک، وإن کان امامک یوم جمعۃ جہمیاً وہو سلطان فصلِّ خلفہ، وأعد صلاتک، وإن کان إمامک من سلطان، وغیرہ صاحب سنۃ، فصلِّ خلفہ ولا تعد صلاتک۔))
’’اور پانچوں نمازیں جس کے پیچھے بھی ادا کی جائیں جائز ہیں، سوائے جہمیہ کے۔ اس لیے کہ وہ معطلہ فرقہ سے ہے۔ اگر آپ نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی ہے، تو اس نماز کو دوبارہ پڑھا جائے۔اگر جمعہ پڑھنے کے لیے امام جہمی ہو، اور وہ حاکم بھی ہو، تو اس کے پیچھے جمعہ پڑھ لو، اور پھر اپنی نماز کا اعادہ کردواوراگر امام یا سلطان یا کوئی دوسرا اہل سنت ہو، تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لو، اور اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘[1]
شرح: …(مصنف رحمہ اللہ کافرمان):[ … وہ معطلہ فرقہ سے ہے]۔معطلہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں۔ صفات الٰہیہ کے منکرین اور مؤولین پر اجمالی رد گزر چکا ہے۔یہ بدعت بھی علم کلام اور علم فلسفہ کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئی۔ ورنہ سلف صالحین صحابہ اور تابعین تعطیل سے بالکل ان جان تھے۔ ان کے دور میں یہ بدعت نہیں تھی۔
اس بدعت کا ایک اور محرک غیبی شرعی امور میں عقل کی بے جا دخل اندازی ہے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ صفات مانیں گے تو اس سے تشبیہ لازم آئے گی اور اللہ تعالیٰ تشبیہ سے منزہ ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جوان سے بڑھ کر اپنی ذات کے متعلق جانتا ہے، اس نے خود ہی اپنی صفات بیان کی ہیں۔ پھر کسی کے لیے انکار کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔
بدعتی کی امامت
(مصنف رحمہ اللہ کا فرمان): [اگر امام یا سلطان یا کوئی دوسرا اہل سنت ہو، تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لو]: یہ مسئلہ امام اکبر-حکمران-سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر وہ نماز پڑھا رہا ہو تو فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔
[1] دیکھیں: المغنی لابن قدامہ (2/185-186) و ’’مجموع الفتاوی‘‘ (23/354-35)۔