کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 436
متشابہ وہ ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہوسکے کہ وہ حلال ہے یا حرام۔ اس صورت میں توقف کیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کی حقیقت و اصلیت ظاہر ہوجائے۔ پاکیزہ رزق کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جس کو انسان نے اپنے ہاتھ سے کمایا ہو، اور اس کے کمانے کے لیے اپنی تمام تر جدوجہد صرف کی ہو۔اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین رزق قرار دیتے ہوئے فرمایا: ((ما أکل أحد طعاماً قط خیراً من أن یأکل من عمل یدہ، وإن نبی اللّٰه داؤد کان یأکل من عمل یدہ)) ’’ کسی ایک نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا، اور بیشک اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔‘‘ بخاری2072۔ رزق حلال کی تلاش میں خود کو تھکا دینا، اور خوب محنت کرنا اللہ کے ہاں معافی اور نجات کا ذریعہ ہے، ایک حدیث میں ہے: ((من بات کالًا من عملہ بات مغفوراً لہ۔))(فتح الباری) ’’ جس انسان نے اپنے کام سے تھک کررات گزاری، اس نے گناہوں سے بخشش میں رات گزاری۔‘‘ اگر ان میں سے کوئی چیز فاسد یا حرام ہے، اور کسی انسان کو مجبوری کی حالت میں کچھ اور نہیں ملتا اوراپنی جان ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، تو اپنی ضرورت کی قدر اس میں سے لینا جائز ہے۔ مثال کے طور پر مردار حرام ہے، مگر جب انسان کے پاس کوئی اور چارہ کار نہ ہو، اور اس کی موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو تو اس میں سے بقدر ضرورت حدسے تجاوز کیے بغیر لے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾(البقرہ: 173) ’’اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون(جو بہتا ہو) اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر(کاٹتے وقت) اللہ کے سوا اور کسی کا نام پوارا جائے حرام کیا ہے پھر جو کوئی لاچار ہو جائے لیکن نافرمانی اور سرکشی نہ کرتا ہو اورحد سے زیادہ نہ بڑھے تواس پر(ان چیزوں کے بھی کھا لینے کا)۔‘‘ ایسے ہی باقی ذرائع کسب کے بارے میں ہے۔ اگر کو ئی کسب ناجائز ہو، تو بوقت ضرورت اسے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے اختیار کرنا بقدر ضرورت جائز ہے۔ مگر کوئی یہ نہ کہے کہ میں اللہ پر توکل کیے ہوئے ہوں، اور میں عبادت کے لیے یا حصول علم کے لیے بیٹھ جاؤں گا، اور لوگ مجھے کچھ نہ کچھ دیں گے، یا کوئی اور سبب پیدا ہوجائے گا۔ ایسا کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔ایسا آج تک کے علماء و صالحین نے نہیں کیا۔بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اپنے ہاتھوں سے کام کرتے تھے۔ ان میں سے کوئی تاجر تھا تو کوئی مزدور، کسی کے پاس کوئی فن تھا توکوئی دوسرا کسی کے ہاں