کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 435
اور نہ ہی آج تک کے علماء نے ایسے کیا ہے۔ حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ ایسا کسب جس میں تھوڑی بہت حقارت ہو، اس سے بہترہے کہ لوگوں کا محتاج بن کر بیٹھا جائے۔‘‘ شرح: … رزق حلال کمانا انبیاء وصالحین کا طریقہ کار اور ان کی سنت ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے بڑی فضیلت اور کرامتیں مخفی رکھی ہوئی ہیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تو اس پر دیس اور بے چار گی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے ایک اچھا ٹھکانہ اور اچھا جیون ساتھی اپنے فضل سے اس مزدوری کے بدلہ میں دیا۔ اللہ تعالیٰ شعیب ں کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿قَالَ إِنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُنکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلَی أَنْ تَأْجُرَنِیْ ثَمَانِیَ حِجَجٍ ﴾(القصص: 27) ’’میں چاہتا ہوں کہ تمہارا نکاح ان دوبیٹیوں میں سے کسی ایک سے اس بات پر کردوں کہ تم میری خدمت کرو آٹھ سال۔‘‘ اورایسے ہی وہ کام جو انسان اپنے ہاتھ سے کرتا ہے، محنت مزدوری، اور دیگر ذرائع معاش جن کی حرمت شریعت میں نہ ہو، سب جائز ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَنفِقُوْا مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ﴾(البقرۃ: 267) ’’ مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمہارے لیے زمین سے نکالتے ہیں اُن میں سے(اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔‘‘ تمام تر ذرائع کسب، ملازمتیں اور فنون، تنخواہیں اور دیگر الاؤنسز، طلب رزق حلال، کسب ِ معیشت اور تجارت وغیرہ کی اصلیت اباحت-حلال اور جائز-ہے۔ جب تک ان میں کسی حرام یا مشتبہ چیز کی ملاوٹ نہ ہو۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن الحلال بین وإن الحرام بین، وبینہما أمور مشتبہات، فمن التقی الشبہات فقد استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع في الشبہات وقع في الحرام))[1] ’’ بیشک حلال بھی واضح ہے اور بیشک حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان چند متشابہ امور ہیں۔جو ان متشابہات سے بچا سو اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کرلی، اور شبہات میں واقع ہوا سو وہ حرام میں جا گرا۔‘‘
[1] متفق علیہ،بخاری 1946، 1599، من حدیث نعمان بن بشیر۔