کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 434
ولا درہم إن کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ، وإن لم یکن لہ حسنات أخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ)) ’’جس نے اپنے بھائی کو تکلیف پہنچائی ہو، یا اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہو، پس اسے وہ اس دنیا میں ہی ختم کردے، اس سے قبل کہ وہ دن آئے جب اس کے پاس نہ دینار ہو اور نہ ہی درہم، اور اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس سے اس ظلم کی قدر اعمال لے کر مظلوم کو دیے جائیں گے، اور اگر اس کی کوئی نیکی نہ ہوگی تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس پر ڈالی جائیں گی۔‘‘(بخاری) دنیا میں کسی کا حق ادا کردینا آخرت کی نسبت بہت ہی آسان بھی اور ممکن بھی۔ کسی انسان کا مال اس حجت سے لینا کہ اس کے پاس حرام کا مال ہے، لینا ہر گز جائز نہیں، اس کی تین وجوہات ہیں: 1۔ جب کوئی جانتاہے کہ وہ مال حرام کا ہے، تو پھر اس کو اپنے لیے کیسے حلال سمجھ لیا۔ 2۔ اگر یہ ظالم توبہ کرلے، اور مال واپس کرنا چاہے تو اس دوسرے آدمی کے مال لینے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکے گا، توگناہ کا یہ بوجھ بعد والے کے سر ہوگا۔ 3۔ دوسرا انسان بھی ہر لحاظ سے اس جرم میں اس کے شریک ہوگیا۔ بلکہ یہ جرم پہلے سے بڑھ کر ہے، اس لیے کہ پہلا انسان اسے گناہ سمجھ کر اس کا ارتکاب کرتاہوگا، مگردوسرے نے اللہ کی شریعت کی کو بدل دیا، اور حرام کو اپنے لیے حلال سمجھ کر لیا۔ کسب ِ معیشت کا بیان 123۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والمکاسب [مطلقۃ] ما بان لک صحتہ، فہو مطلق، إلا ما ظہر فسادہ، وإن کان فاسداً یأخذ من الفساد مسیکۃ نفسہ، [و] لا تقول: ’’ أترک المکاسب و آخذ ما أعطوني۔‘‘لم یفعل ہذا الصحابۃ ولا العلماء إلی زماننا ہذا۔ وقال عمر [بن خطاب] رضی اللّٰه عنہ: [وکسب فیہ بعض الدنیۃ خیر من الحاجۃ إلی الناس]))[1] ہر قسم کے کسب جس کا صحیح ہونا آپ کے لیے ظاہر ہو، وہ مطلق ہے۔ سوائے اس کے جس کا فساد ظاہر ہو۔ اگر وہ فاسد ہوتو، اسے فاسد پر محمول کرتے ہوئے اس سے رک جاناہوگا۔ یہ نہ کہوکہ میں کسب ترک کرتا ہوں، اور وہی لے لوں گاجو مجھے دیا جائے گا۔ یہ نہ ہی تو صحابہ ایسے کیا ہے،
[1] اخرجہ ابن ابی الدنیا فی اصلاح المال(رقم: 321)، ووکیع بن الجراح کما فی کنز العمال (4/122)، و أوردہ ابن الجوزی فی مناقب عمر رضی اللّٰه عنہ ص (194) وإسنادہ لا بأس بہ ۔‘‘