کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 430
والزبیر رضی اللّٰه عنہ-رحمہم اللّٰه أجمعین-ومن کان معہم۔ ولا تخاصم فیہم، وکِلْ أمر ھم إلی ا للّٰه تبارک و تعالیٰ، فإن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قال:((إیّاکم و ذکر أصحابي و أصہاري و أختاني))[1]۔ وقولہ صلي اللّٰه عليه وسلم:((إن اللّٰه تبارک و تعالیٰ نظر إلی أھل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم، فإني قد غفرت لکم))[2] ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے، ان کے درمیان جنگ کے بارے میں بات چیت کرنے سے اپنی زبانوں کو روک کررکھیں، ان کے بارے میں جھگڑا نہ کریں۔ ان کا معاملہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سپرد کردیں۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اور اپنے آپ کو میرے صحابہ، میر ے سسرال اور دامادوں کا(برائی کے ساتھ) ذکر کرنے سے بچا کر رکھو‘‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف دیکھا، اور فرمایا:’’ تم جو چاہو، کرو، بیشک میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔‘‘ مقام صحابہ کے متعلق مؤقف شرح: … حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین ہونے والی جنگوں کے تفصیل میں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا حق پہچانے۔ جن لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کی، آپ کا ساتھ دیا، آپ پر اپنی جانیں اور مال نچھاور کیے، گھربار سب کچھ قربان کیا۔ اس فضیلت میں کوئی بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی لغزشوں کی معافی کا اور ان کی توبہ قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں پکے، سچے اور مخلص مسلمان قرار دیا ہے، اور آنے والے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صدیقین(سچے لوگوں) کی اس جماعت کا ساتھ دیں، فرمایا: ﴿لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ اِنَّہٗ بِہِمْ رَئُ فٌ رَّحِیْمٌo وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَ ظَنُّوْٓا
[1] یہ حدیث ان الفاظ میں تو نہیں ملی۔ لیکن اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ان کے مطالعہ کے لیے دیکھیں: ’’کنز العمال‘‘ (11/529-31 -532- 1537)، بس یہ روایات صحیح نہیں ہیں۔ جیساکہ امام البانی نے ضعیف الجامع میں لکھا ہے (1535- 1536 - 1537)۔ اس کے لیے وہ حدیث کافی ہے جو پہلے گزر چکی ہے:’’جب میرے صحابہ کا … ‘‘۔ [2] اخرجہ البخاری کتاب ا لمغازي -باب غزوۃ الفتح ۔ ومسلم(2494) فضائل الصحابۃ باب فضائل أہل البدر، من حدیث علی بن ابي طالب رضی اللّٰه عنہ۔