کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 428
شوق سے صوفیاء کی مراد جوش محبت میں بغیر خوف وامید کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرناہے، جس میں اللہ تعالیٰ سے جنت کی امید اور نہ ہی جہنم کا خوف ذہن میں رہتا ہے اور اس شوق میں اتنا مبالغہ کیا کہ عبادت کو اس کے اصلی اوصاف اور صراط ِ مستقیم سے ہی خارج کردیا۔ اس شوق کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کو اہل دنیا کو دو پریمیوں کی محبت پر قیاس کرنے لگے-اور اسے عشق ِ مجازی کہہ کر عشق ِ حقیقی تک پہنچنے کے لیے پہلی منزل اور ضروری قرار دینے لگے۔تا کہ دل کی آگ بھی ٹھنڈی ہوجائے، اور پارسائی کا بھرم بھی باقی رہ جائے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ سے محبت کو کسی دوسری محبت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
تیسری خامی یہ تھی کہ اس طرح کی عبادت میں وہ عورتوں کے ساتھ خلوت کو بھی جائز سمجھنے لگے-چونکہ وہ معشوق مجازی ہے اور محبوب حقیقی کو پانے کے لیے معشوق مجازی سے عشق لڑانا اور یہ تمام مراحل طے کرنا ان جہلاء کے ہاں لازمی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ دروازہ کھول دیا۔یہ خصلت آج تک جاہل اور گمراہ، زندیقیت سے متأثر صوفیوں میں موجود ہے اور جب وہ اپنے تئیں سالک سے واصل کے مرتبہ کو پہنچ جاتے ہیں، تو عورتوں کے ساتھ-خواہ و ہ کوئی بھی ہو-اٹھنا بیٹھنا حرام سمجھنے لگتے ہیں۔غرض اس کے علاوہ بھی ان کے ہاں کئی ایسے امورہیں جو سراسر گمراہی کا مرقع ہیں۔جو اصل میں کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے باہر نکلنے، اور قربت الٰہی اختیار کرنے کے لیے اپنی طرف سے من گھڑت طریقے یعنی بدعات کے دین میں داخل کرنے کا نتیجہ ہے۔ جن کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے ہی فرمادیا تھا:
((إیاکم و محدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، و کل بدعۃ ضلالۃ))[1]
’’ اپنے آپ کو(دین میں)نئی ایجاد سے بچاؤ، بیشک ہر نئی ایجاد کردہ شے بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
عبادت کی دعوت
120۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((واعلم-رحمک اللّٰه-: أن اللّٰه تبارک و تعالیٰ دعا الخلق کلہم إلی عبادتہ، ومَنَّ [مِنْ ] بعد ذلک علی من یشاء بالإسلام وتفضلًا منہ۔))
’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائیں-جان لیجیے کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام خلق کو اپنی عبادت کی دعوت دی ہے اور اس کے بعد جس پر چاہا اسلام کی طرف ہدایت دیکر فضل فرما دیا۔‘‘
شرح: … اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونَo﴾(الذاریات: 56)
’’ہم نے انسانوں اور جنوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے واسطے پیدا کیا ہے۔‘‘
[1] ابو داؤد 4607، الترمذی 2676۔ صحیح ۔