کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 427
ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پررد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَo﴾(الاعراف: 99)
’’کیا اللہ تعالیٰ کے دائوں سے(اس کی تدبیر اور اس کے انتظام سے) نہیں ڈرتے اللہ کے دائوں سے وہی لوگ نہیں ڈرتے جو تباہ ہونے والے ہیں۔‘‘
اور جو کوئی اللہ کی عبادت صرف محبت میں کرے، وہ صوفی ہے۔ اس لیے کہ صوفی کہتے ہیں، نہ ہم جنت کی لالچ میں عبادت کرتے ہیں،اور نہ ہی جہنم کا خوف ہے، بس ہم تو صرف اس کی محبت میں عبادت کرتے ہیں۔ یہ گمراہی ہے۔
اور ان جاہل صوفیاء ہی کی دوسری قسم ہے جو اللہ تعالیٰ سے اچھی امید کے بارے میں شرعی قواعد و ضوابط کوپامال کرتے ہوئے ہر حد سے باہر ہوگئے، اور انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے مکر اور اس کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لیا۔
تیسری قسم ان جہلاء کی ہے جو حد سے زیادہ خوف کا شکار ہوئے، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ساری امیدیں توڑدیں، اور نا امید و مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔
یہ سارے امور دین میں جہالت کے ساتھ غلو اور افراط و تفریط کی پیدا وار ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی راہ ِ حق نصیب نہ ہوسکے، اور سبھی گمراہ ہوگئے۔
راہ ِ حق اعتدال کی راہ ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ ان تینوں چیزوں کو جمع کرے۔اللہ کا خوف، اس سے امید اور اس کی محبت۔ ان میں سے کبھی کوئی عنصر اگر وقتی طور پر غالب آجائے تو کوئی حرج نہیں، مگر ان تینوں کو ساتھ ساتھ چلنا چاہیے، اور دین میں تفریق کرکے کچھ کو لے لینے اور باقی چھوڑ دینے کی روش نہیں اپنانی چاہیے۔
بدعتی کی صحبت
119۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((واحذر أن تجلس مع من یدعو إلی الشوق والمحبۃ، ومن یخلو مع النساء وطریق المذہب، فإن ہؤلآء کلہم علی الضلالۃ۔))
’’خبر دار ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں جو عشق اور محبت کی دعوت دیتے ہوں اور جو عورتوں کے ساتھ خلوت کرتے ہوں یا کسی خاص طریقت(صوفیانہ طریقہ) کا التزام کرتے ہوں۔ بیشک یہ سارے گمراہی پر ہیں۔‘‘
شرح: … اس پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ صوفی گروہوں اور ان کے طریق ِکار-مناہج-کے بارے میں بیان فرمارہے ہیں۔اور ان کی ایجاد کردہ بعض اصطلاحی باتیں ذکر کررہے ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ گمراہ ہوئے۔ صوفیاء نے کچھ نئی اصطلاحیں ایجاد کیں، جیسے شوق، محبت، عشق مجازی وغیرہ۔ محبت سے مقصود وہ محبت نہیں ہے جو مقصود ِ شریعت ہے، اور جس پر کتاب و سنت کے دلائل موجود ہیں۔