کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 426
لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ علم کلام پڑھے۔‘‘[1]
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ علم کلام پڑھنے والا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ علماء کلام زندیق ہیں۔‘‘نیز فرماتے ہیں: ’’اہل علم کلام کی مجلس میں نہ بیٹھیں، اگرچہ وہ سنت کی حفاظت ہی کیوں نہ کررہے ہوں۔‘‘[2]
مسلمان: بالخصوص طالب علم پر واجب ہوتاہے کہ وہ آثار-قرآن و سنت اور أقوال صحابہ-کی پیروی کا اہتمام کرے۔ یہی قرآن و سنت کے علوم اسلام کے ابتدائی مصادر ہیں، اور پھر اس کے بعد مؤمنین کی راہ ہے اور سلف صالحین کا منہج آثار میں پہلے درجہ میں داخل ہے اور یہ بھی واجب ہوتا ہے کہ جب مسلمان کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کرنا چاہے تو علماء اہلِ سنت و الجماعت سے دریافت کرے اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھے، یہی ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والا بد بخت اور شقی نہیں رہے گا، اور ان سے علم حاصل کرنے والا ان شاء اللہ رو شن راہ پر قائم رہے گا۔
عبادت میں خوفِ الٰہی اورحیاء
118۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((واعلم أنہ ما عبد اللّٰه [بشيئ] بمثل خوف من اللّٰه، وطریق الخوف والحزن والشفقات والحیاء من اللّٰه تبارک و تعالیٰ۔))
’’اور جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کی گئی اس کے خوف کے مثل اور خوف کی راہ، اور حزن، اور شفقت، اللہ تبارک وتعالیٰ سے حیائ۔‘‘
شرح: … یہ ان چند قلبی احوال کا بیان ہے جن سے عبادت مکمل ہوتی ہے۔عبادت میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
اللہ تعالیٰ کا خوف۔ اس سے اچھی امید۔
اور اس کی محبت۔
جب تک ان میں سے کوئی ایک شرط ناقص رہے گی عبادت درست طور پر ادا نہ ہوگی۔ یعنی عبادت اللہ تعالیٰ کی محبت میں اور اس کی قبولیت کی امید پرشروع کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہوتا ہے۔یہ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔
جو صرف خوف کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرے، وہ خارجی ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے صرف اچھی امید لگا کر اس کی عبادت کرے، وہ مرجئی ہے۔مرجئی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہیں رکھتے بلکہ صرف امید پر عبادت کرتے
[1] ابن ابی حاتم ’’مناقب الشافعی‘‘ ص182، ابو نعیم ’’ الحلیۃ‘‘(9/111)، ابن عبد البر ’’ الانتقاء ‘‘ ص 78.
[2] أخرجہ ابن بطۃ فی ’’ الابانۃ الکبری‘‘(3/421)، وابن جوزي فی ’’المناقب‘‘ ص 204) و أوردہ ابن ابي یعلی في طبقات الحنابلۃ (1/334)۔