کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 419
کے گھڑے میں گر جاتا ہے۔
اس لیے کہ فتنوں کی پوری تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی قیادت کرنے والے بیوقوف قسم کے سنگ دل، اور خواہش پرست لوگ ہوا کرتے ہیں، جن کا کوئی ایمان و مذہب نہیں ہوتا۔ بس صرف جاہ پسندی، شہرت یا دوسرے خفیہ امور کے لیے ایسی حرکات کرتے ہیں، جس میں وہ اپنے ساتھ کئی سادہ لوح لوگوں حتی کہ کئی سادہ مزاج بڑے علماء کو بھی ملا لیتے ہیں۔ جن کو خود یہ پتہ نہیں ہوتا وہ کیوں اور کس مقصد کے لیے فتنہ گری کررہے ہیں۔اس صورت میں علماء، فقہاء، قبائل کے بڑے، اہل حل و عقد اور حکمرانوں-جن کا حکم چلتا ہے، اور عوام میں ان کی بات سنی جاتی ہے-پر واجب ہوتا ہے کہ وہ فتنہ کی سر کوبی کے لیے میدان میں آئیں اور اپنا کردار ادا کریں۔
چونکہ یہ فتنہ کا دور ہے، جس میں ہر طرف سے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے داغے جارہے ہیں اور بے گناہ عوام کا قتل ہورہا ہے۔ مقتول کو پتہ نہیں وہ کس بات پرقتل ہورہا ہے اورقاتل نہیں جانتا کہ وہ کیوں قتل کررہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فتنہ سے بچنے کی ترغیب میں وارد نصوص ذکر کی جائیں۔جب فتنہ بپا ہوتا ہے، توسب کو لپیٹ لیتا ہے کسی کو نہیں چھوڑتا، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابo﴾(الانفال: 25)
’’ا ور تم ایسے فتنہ وبال سے بچو کہ جو خاص کر ان ہی لوگوں پر واقع نہیں ہو گا، جو ان میں سے گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘
مفسرین کرام اس آیت کے معنی و تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ فتنے سے ڈرو، اگر یہ رونما ہوا تو اسکا شکار صرف ظالم لوگ ہی نہیں ہونگے، بلکہ یہ تم سب کو اپنے گھیر ے میں لے لے گا، ا ور ہر نیک و بد کو مبتلا کرے گا۔‘‘
بدکاروں ا ور ظالموں کے لیے تویہ ان کے گناہوں کی سزا ہو گا ا ور نیک لوگوں کو یہ اس لیے دھر ے گا کہ وہ گنا ہ ہوتے دیکھتے تھے مگر خاموش تماشائی بنے رہے، انھوں نے ظالم کے ظلم کا سد باب نہ کیا، نہ اس کے خلاف آواز لگا کر اس کی نکیر کی۔ جو شخص فتنوں سے نہیں بچتا ا ور احتیاط سے کام نہیں لیتا، فتنے اسے اپنے ساتھ یو ں بہا کر لے جاتے ہیں جیسے سیلاب خس و خاشاک کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((سَتَکُوْنُ فِتَنُٗ، الْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرُٗ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرُٗ مِنَ الْمَاشِیْ، وَالْمَاشِیْ فِیْہَا خَیْرُٗ مِنَ السَّاعِیْ، وَمَنْ یَشْرِفُ لَہَا تَسْتَشْرِفُہٗ))[1]
’’ فتنے نمودار ہوں گے، ان میں بیٹھا ہو ا آدمی کھڑے سے بہتر ا ور کھڑا آدمی چلتے سے بہتر ا ور محض چلتا ہو ا
[1] رواہ البخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام، ح: 3426۔ صحیح مسلم،کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب نزول الفتن مواقع القطر،ح 5244۔