کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 418
’’سو جو کوئی طاغوت کا انکار کرے، اور اللہ پر ایمان لائے، تحقیق اس نے ایک مضبوط رسی کو تھام لیا جو ٹوٹنے والی نہیں، اور اللہ گ سننے والے اور جاننے والے ہیں،،۔ فتنوں کے دور میں مؤمن کا کردار 114۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وإذا وقعت الفتنۃ، فالزم جوف بیتک، وفر من [ جوار] الفتنۃ، وإیاک والعصبیۃ، وکل ما کان من قتال بین المسلمین علی الدنیا، فہو فتنۃ۔فاتق اللّٰه وحدہ لا شریک لہ، ولا تخرج فیہا، ولا تقاتل فیہا، ولا تہوی ولا تشایع ولا تمایل، ولا تحب شیئاً من أمورہم، فإنہ یقال: ’’ من أحب فعال قوم-خیراً کان أو شراً-کان کمن عملہ۔‘‘وفقنا اللّٰه وإیاکم لمرضاتہ، وجنبنا و إیّاکم معصیۃ۔)) ’’جب فتنہ پیدا ہوجائے، تو اپنے گھر کے درمیان میں دبک کر رہ جائیے۔اور فتنہ کے پڑوس سے دور رہیے اور اپنے آپ کو عصبیت سے بچا کر رکھیں۔مسلمانوں کے درمیان جو بھی جنگ دنیاکے بارے میں ہو، وہ فتنہ ہے۔ اللہ وحدہ لاشریک سے ڈر کر رہیں اور اس فتنہ میں نہ نکلیں اور نہ ہی فتنہ میں جنگ کریں۔ نہ ہی خواہشات نفس کا شکار ہوں، اور نہ ہی ان کی نشرو اشاعت کریں اور نہ ہی ان کی طرف میلان رکھیں اور نہ ہی فتنہ کے کاموں میں سے کسی ایک کو اچھا سمجھیں۔ اس لیے کہ یہ کہاگیا ہے: ’’ جس نے کسی قوم کے کام پسند کیے-خواہ وہ خیر کے ہوں یا شر کے-وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود وہ عمل کیا ہو۔‘‘اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنی رضامندی کے کام کرنے کی توفیق دے، اور ہمیں اور آپ کو اپنی نافرمانی سے بچا کر رکھے۔‘‘ آمین۔ شرح: … یہ بھی ان اہم ترین اصولوں میں سے ہے جن کے بارے میں کئی نصوص ِشریعت وارد ہوئی ہیں، اور سلف ِ صالحین نے بھی ان کی تاکید کی ہے۔ یہ معاملہ فتنہ کے وقت مؤمن کے مؤقف سے تعلق رکھتا ہے۔ فتنہ و فساد کے وقت اہل ِ سنت و الجماعت کے چند اصول مصنف رحمہ اللہ نے یہاں بیان کیے ہیں۔ ہر وہ معاملہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دینی یا دنیاوی امور میں تفریق پیدا ہو، فتنہ کہلاتا ہے۔ اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ بات جنگ او رقتال تک پہنچے۔ سو جس چیز سے مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پیدا ہو، وہ بھی فتنہ ہے، اور جس سے مسلمانوں کے دین میں مشکلات پیدا ہوں وہ معاملہ بھی فتنہ ہے اور مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت اور قتل و غارت گری فتنہ ہے۔جس چیز سے مسلمانوں کی مصلحتیں پامال ہوتی ہوں، جیسے امن و امان، لوگوں پر رزق میں تنگی،لوگوں میں آپس میں ایک دوسرے پر ظلم وغیرہ، یہ بھی فتنہ ہے۔ جب ایسے حالات ہوں تو اس وقت مسلمان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ جائیں۔ اس لیے کہ انسان کے نہ چاہتے ہوئے بھی غیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوجاتا ہے اور ہلاکت