کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 417
’’ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو(اللہ کا)شریک بناتے ہیں اور ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں لیکن جو ایمان والے تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
چھٹي شرط: سر تسلیم خم کرلینا: … اس سے مراد یہ ہے کہ لا إلہ إلا اللہ کے تقاضوں کا ظاہری اور باطنی طور پر اس طرح تابع ہوجائے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ترک کرنے کا خیال بھی نہ آئے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان اللہ کے عائد کردہ فرائض پر عمل پیرا ہو،اور محرمات کو بالکل ترک کردے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہٗ للّٰه وَہُوَ مُحْسِنٌ وّاتَّبَعَ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً﴾(النساء: 125)
’’اور اُس شخص سے کس کا دین اچھا ہو سکتا ہے جس نے حکمِ الٰہی کو قبول کیا اور وہ نیکوکار بھی ہے اور ابراہیم کے دین کا پیرو ہے جو یکسو(مسلمان) تھے۔‘‘
حدیث میں ہے:
((واللٰہ لا یؤمن أحدکم حتّی أکون أحب إلیہ من ولدہ و والدہ والناس أجمعین۔‘‘متفق علیہ۔))
’’ اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی ایک اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اپنی اولاد، اپنے والدین اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
ساتویں شرط: قبولیت: … یعنی اس کے مطالبہ کودل کی خوشی سے مان لینا، اسے اپنے آپ پر جبر یا سختی نہ سمجھنا۔ مراد یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے تقاضوں کو بسرو چشم قبول کرلے، ان پر دل سے یقین رکھے اور زبان سے اقرار کرے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿قُولُوْا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْنَا﴾(البقرۃ: 136)
’’ تم کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے، اور اس چیز پر ایمان لائے جو ہماری طرف اتاری گئی ہے۔‘‘(یعنی قرآن)۔
آٹھویں شرط: غیر اللہ کا انکار: … اللہ کے علاوہ جن کی پوجا کی جاتی ہو،(اور وہ اس پوجا پر راضی ہوں)، ان سب کا انکار کرنا، اور ان سے بغض ونفرت رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کے سینے میں دو دل کبھی نہیں پیدا کیے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ غیر اللہ کی بھی عبادت کی جائے اور اللہ تعالیٰ کی بھی۔ غیر اللہ کی عبادت کے ساتھ جتنی بھی اللہ کی عبادت ہوگی وہ سب کی سب ضائع اور بے فائدہ ہے۔اس شرک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان تمام اعمال کو اکارت کردیں گے، فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لَا انفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo﴾(البقرہ: 256)