کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 411
تَسْتَہْزِئُونَ﴾(التوبہ: 65)
’’ اوراگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ ضرور کہیں گے: ہم تو آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ آپ فرمادیں: کیا اللہ، اس کی آیات، اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے۔‘‘
کفریہ کلام: جیسے غیر اللہ کو اپنا حاجت رواء اور مشکل کشا سمجھ کر پکارنا، ان کے نام کی دھائی دینا، اور ان ما فوق الاسباب امداد طلب کرنا۔یہ سب شرک اورکفریہ کلام ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِہِمْ ﴾(التوبۃ: 74)
’’حالانکہ بلاشک وہ کفر کی بات کہہ چکے اوراسلام لانے کے بعد(یعنی اسلام کادعویٰ کرنے کے بعد) پھر وہ کافر بن گئے۔‘‘
کفریہ افعال
جیسے کہ کو ئی غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، یا غیر اللہ کے نام کی نذر نیاز مانے، یا غیر اللہ کے لیے سجدہ کرے۔ یہ سارے کفریہ اور شرکیہ امور ہیں جن سے نیک اعمال ختم ہوجاتے ہیں۔
شکوک و شبہات
جیسے کہ کوئی انسان پوریقرآن کے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرے، یا قرآن کی کسی ایک آیت کے بارے میں شک کرے۔
مذکورہ بالا امور ارتداد(مرتد ہوجانے)کے اصول ہیں۔ جن کی اصل چار چیزیں ہیں:
قول فعل
اعتقاد شک
ان کے علاوہ بھی بہت سارے امور ہیں جن کے کرنے سے کفر لازم آتاہے۔ فقہاء کرام نے اس بارے میں فقہی کتابوں میں پورے پورے ابواب لکھے ہیں۔ بعض علمائے کرام نے ان پر مستقل تصانیف لکھی ہیں، جیسے محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ کی کتاب: ’’نواقض الإسلام ‘‘اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی کتاب ’’ اکفار الملحدین۔‘‘
اس سے ظاہر ہوا کہ کفر کے لیے کوئی لمبے پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، اور نہ ہی اس کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بیشتر اوقات چند لحظات میں کفر صادر ہوسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ کبھی انسان بغیر عمد کے بھی کفریہ حرکت کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اس لیے مسلمان کو ہر دم بچ کررہنا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے جو دعا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے:
((یا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دینک و طاعتک))