کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 410
اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان سنت کا علم حاصل کرے اور پھر اس پر عمل بھی کرے اور بدعت اور اہل بدعت سے بچ کررہے اور علم شرعی کے سلیم اصولوں پر چلتا رہے۔
کفر اور اسلام کے درمیان فاصلہ
112 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((واعلم-رحمک اللّٰه-: أنہ لیس بین العبد وبین أن یکون مؤمنا حتی یصیر کافراً، إلا أن یجحد شیئاً مما أنزلہ اللّٰه تعالیٰ، أو یزید في کلام اللّٰه أو ینقص،أو ینکر شیئاً مما قال اللّٰه [عزو جل ]، أوشیئاً مما تکلم بہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم۔فاتق اللّٰه-رحمک اللّٰه-وانظر لنفسک، وإیاک والغلو في الدین، فإنہ لیس من طریق الحق في شيئٍ۔))
’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے-جان لیجیے کہ: ’’ بندہ کے درمیان اور اس کے مومن ہونے کے درمیان یہاں تک کہ وہ کافر ہوجائے، کوئی چیز نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کسی چیز کا انکار کرے۔ یا اللہ تعالیٰ کے کلام میں کچھ زیادہ کرے، یا کم کرے، یا اللہ تعالیٰ کے فرامین میں سے کسی چیز کا انکار کرے، یا کسی ایسی چیز کا انکار کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ سے ڈریے-اللہ آپ پر رحم کرے-اپنے نفس پر غور و فکر کیجیے، اور اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچائیے۔ کیونکہ غلو میں راہ ِ حق میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
شرح: … یہاں سے مصنف رحمہ اللہ نواقض اسلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اور اس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ کفر اور ایمان کے درمیان چند باتوں کا فرق ہے۔ یہ باتیں قلبی بھی ہوسکتی ہیں، اور لسانی بھی، یا ظاہری اعمال میں بھی۔
کفرکی مثالیں
قلبی کفر یعنی زبان سے اقرار تو کرتا ہے، مگر دل میں اس کا یقین نہیں ہے، جیسا کہ منافقین کا رویہ اور عمل تھا،اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتے ہیں:
﴿یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ﴾(الفتح: 11)
’’ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں۔‘‘
اور قولی کفر کی مثال: دین کا ٹھٹھہ اڑانا اور شکوک و شبہات پھیلانا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَئِن سَأَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّٰہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنتُمْ