کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 409
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا﴾(الحجرات: 15) ’’, مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور پھر شک وشبہ نہ کریں۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچے ایمان کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ مومن کا ایمان ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہو۔ کیونکہ شک کرنا منافقین کی صفت ہے نہ کہ مومنین کی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰه وأني رسول اللّٰه، لا یلقي اللّٰه بہما عبد غیر شاکٍ فیہما دخل الجنۃ۔))(مسلم) ’’ میں گواہی دیتا ہو ں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں(محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ا للہ کا رسول ہوں، یہ دو گواہیاں ایسی ہیں کہ جو انسان ان دو گواہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملتا ہے کہ اسے ان کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا، تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ بدعات کا سدِ باب کیسے ممکن تھا؟ 111۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((واعلم-رحمک اللّٰه-: لو أن الناس وقفوا عند محدثات الأمور، ولم یتجاوزوہا بشيئٍ [و] لم یولدوا کلاماً مما لم یجيء فیہ أثر عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم و لا عن أصحابہ، لم تکن البدعۃ۔)) ’’اور جان لیجیے-اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے-: ’’ اگر لوگ نئے ایجاد کردہ کاموں سے رک جائیں، اور اس سے آگے ذرا بھر بھی نہ بڑھیں، اور ایسا کلام نہ ایجاد کریں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں ہے، اور نہ ہی صحابہ کرام سے، تو بدعت نہ پھیلے۔‘‘ شرح: … یعنی لوگ اگرقرآن و سنت اور منہج سلف ِ صالحین پر اکتفا کرلیں، اور اس سے آگے نہ بڑھیں، اور اہل بدعت اور ان کی بدعات کو ترک کردیں، نہ ہی ان کی تصدیق کریں اور نہ ہی ان لوگوں کی پیروی کریں تو بدعت نہ پھیلے، وہ خود بھی نجات پالیں اور سنت بھی محفوظ ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللّٰه وسنۃ رسولہ))(مسلم) ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک ان پر مضبوطی سے کاربند رہوگے گمراہ نہیں ہوگے، وہ ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘