کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 408
کرامیہ ان کا کہنا ہے ایمان زبان سے اقرار کا نام ہے، بھلے وہ دل سے یقین رکھے یا نہ رکھے۔ بس کسی طرح بھی زبان سے اقرار کرلیا تو وہ مؤمن ہوگیا۔ ان کے اس قول کے مطابق بڑے بڑے منافق عبد اللہ بن ابی و غیرہ سب مؤمن تھے، اس لیے کہ وہ زبان سے اقرار کرتے تھے، اگرچہ ان کے دل شک و شبہ میں گرفتارتھے، یا کفر چھپائے ہوئے تھے۔ مرجئہ فقہاء ان کا کہنا ہے کہ ایمان دل سے پختہ یقین او رزبان سے اقرار کا نام ہے، اگرچہ وہ کوئی بھی عمل نہ کرے۔ ان سب کا اتفاق ہے کہ عمل ایمان میں داخل نہیں ہے۔ لیکن ان کے مختلف گروہ کا زبان سے اقرار اور دل سے یقین کے باے میں اختلاف رہا ہے۔ جب کہ اہل ِ سنت و الجماعت جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے چن لیا ہے،جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیّٖنٰتُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ وَ اللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾(البقرہ: 213) ’’(پہلے) لوگ ایک ہی طریق(دین) پر تھے(پھر لگے اختلاف کرنے) تو اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا(مومنوں کو) خوشخبری سناتے ہوئے اور(کافروں اور بدکاروں کو) ڈراتے ہوئے اوران کے ساتھ سچی کتاب اتاری اس لیے کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ان کا فیصلہ کر دے اور صاف صاف حکم پہنچنے کے بعد آپس کی ضد سے انھی لوگوں نے اختلاف کیا جن کو یہ کتاب(اختلاف مٹانے اور دور کرنے کے لیے) دی گئی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے ایمان والوں کو ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کر رہے تھے سچی بات کی راہ بتلا دی اور اللہ جس کو چاہتا ہے سچی راہ بتلاتا ہے۔‘‘ اہل سنت و الجماعت کا ایمان ہے کہ:’’ ایمان دل سے یقین، زبان سے اقرار، اور اعضاء(جوارح) سے عمل کا نام ہے۔ نیک عمل کرنے سے ایمان بڑھتا ہے، اور نافرمانی کے کاموں سے گھٹتا ہے۔‘‘ اس پیرائے کے آخر میں مصنف رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ:’’اور اپنے دل میں کسی شک و شبہ کے بغیر اس کا اعتقاد رکھے۔‘‘ مذکورہ عبارت دین کا ایک اہم ترین اصول ہے کہ اپنے دین اور عبادت کے برحق ہونے اور دوسرے ادیان کی عبادت اور دین کے باطل ہونے پر پختہ یقین ہو، ورنہ انسان کی عبادت اسے ہر گز کوئی فائدہ نہ دے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: