کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 407
3۔ تقدیر میں کلام: جو کہ قدریہ کا مذہب ہے۔ اسلام سے الگ ہونے والے فرقوں میں سے ایک فرقہ قدریہ کا ہے۔ یہ لوگ تقدیر کے منکر ہیں۔ ان کی بھی دو قسمیں ہیں: قدریہ جبریہ جوانسان کو مجبور محض کہتے ہیں۔ او ران کا کہنا ہے جو کچھ انسان کی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے، وہ ہر صورت میں ہو کر رہے گا، انسان کو عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قدریہ نفاۃ(منکر) نفاۃ کا معنی ہے: نفی کرنے والے۔ ان میں معتزلہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے کوئی عمل نہیں پیدا کیا، انسان خود اپنے عمل پیدا کرتا ہے۔ جب کہ قدریہ جبریہ کہتے ہیں کہ انسان کا فعل اصل میں اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، اورانسان اپنے قول و فعل میں مجبور ہے، اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں۔ چونکہ دونوں گروہ تقدیر میں کلام کرتے تھے، اس لیے دونوں کو قدریہ کہا گیا۔ پھر ان دونوں گروہوں سے بہت سی شاخیں نکلی ہیں۔ جن کی تفصیل کا موقع یہاں پر نہیں۔ 4۔ ایمان میں خلل اور کلام: جیسا کہ پرانے مرجئیہ کا مذہب ہے۔ پھر ان میں سے ہر ایک سے کئی ایک فرقے نکلے، اور ان کی اتنی تعداد ہوگئی کہ آسانی سے ان کا شمار ممکن نہ رہا۔ ان لوگوں کو مرجئہ کہاگیا۔ ان کی بھی کئی اقسام ہیں: المرجئہ مرجئہ وہ لوگ ہیں جو اعمال کے ایمان میں داخل ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے اس قول کے مطابق انسان اگر نیکی کاکوئی ایک عمل بھی نہ کرے تب بھی وہ مؤمن ہے۔ انہیں مرجئہ کہا گیا، جو کہ ارجاء سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے: تاخیر۔ چونکہ ان لوگوں نے عمل کو ایمان سے مؤخر کردیاتھا، اس لیے انہیں مرجئہ کہا گیا۔ ان کی بھی کئی اقسام ہیں: الجہمیہ ان کا کہنا ہے کہ ایمان صرف دل کی معرفت کا نام ہے، زبان سے اقرار کرنا یا عمل کرنا کوئی ضروری نہیں۔ ان کے اس قول کے مطابق فرعون بھی مؤمن ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کو دل سے جانتا تھا مگر تکبر، نخوت اورحکومت کی وجہ سے زبان سے اس کا اقرار نہیں کرتا تھا۔ اشاعرہ ان کا کہنا ہے ایمان دل سے پختہ اعتقاد رکھنے کا نام ہے، اگرچہ زبان سے اقرار نہ کرے، او رنہ ہی اپنے اعضاء سے کوئی عمل کرے۔ایمان کے لیے دل میں یقین رکھ لینا کافی ہے۔