کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 403
ساتھی-صحابہ کرام-نہ تھے۔ یا کوئی انسان اپنے سے پہلے کی ایجاد کردہ بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو، وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ خود بدعت ایجاد کرنے والا ہو۔ جس نے[بدعت کے متعلق] ایسے گمان رکھا(کہ یہ پہلے سے چلے آنے والی سنت ہے) یا ایسے کہا، حقیقت میں اس نے سنت کو رد کیا، اور اس نے حق اور جماعت کے خلاف کیا، اور بدعت کو مباح جانا، ایسا انسان اس امت کے لیے ابلیس سے زیادہ مضر ہے۔‘‘ شرح: … اس پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ نے بعض اصول ذکر کیے ہیں۔ ان میں سے: پہلا اصول: دین وہ ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اسے عتیق-پرانا-اصلی اور اول کے معنی میں کہا گیا ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں۔ دوسرا اصول: امت ساری ایک ہی دین پر متفق اور قائم تھی، اور ان کا اجماع معتبر تھا، ان کا اصول ایک ہی تھا، اور ان کی جماعت ایک ہی تھی، یہاں تک کہ امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں حالات سازگار نہ رہے، اور امت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکی۔ خصوصی طور پر خوارج اور شیعہ کے ظہور سے امت بٹ گئی۔ اس لحاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل امت میں افتراق کے لیے پہلی اینٹ ثابت ہوا۔ مصنف رحمہ اللہ نے اس پیرائے کے آخر میں فرمایا ہے: ’’کوئی انسان اپنے سے پہلے کی کی ایجاد کردہ بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو، وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ خود بدعت ایجاد کرنے والا ہو۔‘‘اس سے مقصود اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من سنّ في الإسلام سنۃ حسنۃ فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا بعدہ من غیر أن ینقص من أجورہم شيئ، ومن سنّ في الإسلام سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرہ ووزر من عمل بہا من بعدہ من غیر أن ینقص من أوزارہم شيئ))(مسلم) ’’جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتداء کی،اس کے لیے اسکا اوران تمام کا اجر ہے جو اس پر اس کے بعد عمل کرینگے،اور ان میں سے کسی کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہوگی، اور جس نے اسلام میں کسی بری راہ کی بنیاد رکھی اس پر اس کابوجھ ہے، اور ان کا بوجھ ہے جو اسکے بعد اس پر عمل کرینگے، اور ان میں کسی کے بوجھ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔‘‘ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ اس انسان کو مبارک ہوجس کے مرنے کے ساتھ ہی اس کے گناہ بھی مرگئے، اور اس انسان کے لیے تباہی ہو جو خود تومرجاتا ہے، مگر اس کے گناہ سوسال، اور دو سو سال اس کے بعد رہتے ہیں، اسے ان کی وجہ سے قبر میں عذاب ہوتاہے، اور اس کی بابت سوال ہوتاہے، یہاں تک کہ وہ گناہ روئے زمیں سے ختم نہ ہوجائے۔‘‘ اس حدیث سے استدلال کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اندھی تقلید، کتاب و سنت کا رد اور بدعات کا ارتکاب اس حجت سے کرنا کہ ’’ہمارے آباء ایسے کرتے آئے ہیں۔‘‘ان [بدعات کے موجدین ]کے بد اعمال میں اضافہ کا سبب بھی